Inquilab Logo

’’موجودہ دور میں صرف شعراء و ادیبوں سے امید قائم ہے‘‘

Updated: January 09, 2023, 3:14 PM IST | mubasshir akbar | MUMBAI

نوجوان افسانہ نگار شاداب رشید کے مطابق جب تمام کا تمام میڈیا ’گودی میڈیا‘ بن گیا ہے تو شاعر و ادیب کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ پیش ہے انٹر ویو سیریز کی تیسری قسط

Young fiction writer Shadab Rasheed has established an identity in literary journalism along with fiction writing; Photo: INN
نوجوان افسانہ نگار شاداب رشید نےافسانہ نگاری کے ساتھ ادبی صحافت میں بھی شناخت قائم کی ہے; تصویر:آئی این این

ادب نما پرنئے سلسلے کے تحت ہم ۱۰؍ نوجوان ادباء و شعراء سے گفتگو اپنے قارئین تک پہنچائیں گے ۔ اس سلسلے کی تیسری   قسط کے تحت نوجوان  افسانہ نگارشاداب رشید کا انٹر ویو پیش کیا جارہا ہے۔ شاداب رشید جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے معروف افسانہ نگار ، کالم نگار  و صحافی ساجد رشید (مرحوم) کے فرزند ہیںلیکن صرف یہی شاداب کی واحد شناخت نہیں ہے بلکہ انہوں  نے اپنے والد سے افسانہ نگاری اور ادبی صحافت کے رموز سیکھنے کے بعد ان دونوں میدانوں میں اپنی شناخت قائم کی ہے۔ انہوں نے روایتی افسانہ نگاری کو اپنی تخلیقات میں جگہ دینے کے ساتھ ساتھ نئے اور جدید موضوعات پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ شاداب رشید نہ صرف افسانہ  نگاری میں مصروف ہیں بلکہ وہ اپنے والد کے جاری کردہ  شہرہ آفاق رسالے ’نیاورق ‘ کی ادارت بھی سنبھالتے ہیں اور اردو کی ادبی  کتابوں کی ایک دکان  ’کتاب دار ‘ بھی چلاتے ہیں۔ ا س دکان کو ممبئی و اطراف میں اردو کی ادبی کتابوں کی واحد دکان ہونے کا شرف حاصل ہے۔اس کے ساتھ ہی شاداب نے نیا ورق کا ڈیجیٹل چینل بھی لانچ کیا ہے کا نام ’نیا ورق ریویو ‘  ہے۔  یہاں پر  مختلف ادبا ء و شعرا سے گفتگو ، ان کے انٹر ویو اور ادبی مباحث منعقد  کئے جاتے ہیں  اور پھر انہیںیوٹیوب اور فیس بک پر جاری کردیا جاتا ہے۔ شاداب رشید کا پہلا افسانوی مجموعہ’ کتابستان ‘ اس سال منظر عام پر آنے کی امید ہے۔ پیش ہے  انٹر ویو 
 آپ نے لکھنا کب سے سے شروع کیا ؟ شروعات میں لکھتے وقت کیا دقتیں آئیں؟
   میں نے لکھنا ۲۰۰۹ ء کے آس پاس سے شروع کیا۔ میں افسانہ نگاری کی ابجد سے واقف نہیں تھا  اسی لئے  افسانہ نگاری بڑی ٹیڑھی کھیر ثابت ہوئی۔ اسی لئے شروعات میں میری تحریریں کافی غیر معیاری(میںا نہیں افسانہ نہیں کہوں گا) تھیں۔  
 لکھنے کے لئے صنف افسانہ ہی کیوں منتخب کیا ؟
  اس کا جواب مشکل ہے۔ دراصل مجھے ناول پڑھنا بہت پسند ہے اس  لئے ناول لکھنا بھی چاہتا تھا۔ ناول کے لئے لکھنے کی مشق ضروری ہے اس  لئے پہلے افسانہ نگاری میں طبع آزمائی کی۔ افسانوں کا سفر بس ابھی شروع ہوا ہے۔ آگے چل کر کب پہلا ناول لکھوں گا کچھ کہہ نہیں سکتا ۔ہنوز دلی دور است۔
 جب آپ کسی خیال کو افسانہ میں پیش کرتے ہیں تو اس وقت آپ کو سب سے زیادہ مدد کس سے ملتی ہے؟ 
  مطالعہ ، مشاہدہ اورادباء کی صحبت۔مطالعے کا شوق والد صاحب کو دیکھ کر پیدا ہوا۔ ابّااور اُن سے ملنے جلنے والے قلمکاروں کی صحبت میں رہ کر کافی کچھ سیکھا  اور سیکھنے کا یہ عمل اب بھی جاری ہے۔مشاہدہ کرنے اور اسے اپنی تحریروں میں پیش کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں، اس سے بھی کافی مدد ملتی ہے ۔
  آپ کے استاد آپ کے رہنما ہیں یا آپ کا مطالعہ؟
  ابّا مرحوم( ساجد رشید) کے انتقال سے پہلے اور انتقال کے بعد خصوصاً اُن کے تمام دوست میرے استاد کا رول بخوبی نبھا رہے ہیں۔ میں اُن خوش نصیبوں میں سے ایک ہوں جسے ایک نہیں کئی اُستاد میسر آئے ہیں لیکن یہ ظاہر ہے کہ بغیر مطالعے کے اُستاد بھی ہمارے  لئے کچھ نہیں کرسکتے اس  لئے مطالعہ کئے بغیر  لکھنا مجھے ایسے ہی لگتا ہے جیسے میں نے کچھ لکھا ہی نہ ہو ۔
 بطور قلم کار مطالعہ کی اہمیت پر روشنی ڈالیں ـ ؟
  صرف قلم کار کی حیثیت سے ہی نہیں میں تو سمجھتا ہوں کہ دنیا میں ہر انسان کو مطالعے کی عادت ہونی چا ہئے۔ چاہے وہ جس چیز کا مطالعہ کرے لیکن شرط یہی ہے کہ وہ پڑھے اور خوب پڑھے۔ حال ہی میں ایک قول پڑھا تھا کہ علم لامحدود ہے، یہ ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں اور میری نظر میں مطالعہ اسی علم کو کشید کرنے کا ذریعہ ہے۔  اس لئے مطالعہ کے بغیر نہ آپ لکھ سکتے ہیں اور نہ بول سکتے ہیں ۔ آپ کی شخصیت بھی  مطالعہ کی بنیاد پر ہی مستحکم ہے۔
آپ اپنے تخلیقی شعبے میں کسے اپنا آئیڈیل مانتے ہیں؟  
 میرے والد ساجد رشید میرے لئے افسانہ نگاری اور صحافت دونوں کے میدان  میں آئیڈیل ہیں۔ ان کے نام کے بعد کسی  اورجواز کی شایدضرورت نہیں ہے ۔
 بنیادی طور پر آپ کے لکھنے کا مقصد کیا ہے؟
    ذہنی تسکین اکلوتا مقصد ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ کسی بھی ادیب کو کسی مقصد کے تحت لکھنا چا ہئے۔ ہاں ، اگر آپ کی تحریر میں دم خم ہوگا اور وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپیل کرے گی تو وہ خود ہی کسی نہ کسی تحریک یا انقلاب کو جنم دے دےگی۔
  کیا آپ اپنی اب تک کی  افسانہ نگاری سے مطمئن ہیں؟ 
   اس سوال کا جواب دینا مجھ جیسے طالب علم کے  لئے جلد بازی ہوگی۔ ابھی شروعات کی ہے۔ دیکھیے منزل کہاں لے جاتی ہے۔فی الحال جو کچھ لکھا ہے اور جتنا لکھا ہے وہ قارئین کے سامنے ہے ۔ وہ فیصلہ کریں۔ 
 کیا ادب میں جونیئر ہونے کی وجہ سے آپ کو اپنے پیر جمانے میں دشواری ہوتی ہے ؟ 
 آج کے زمانےمیں چھپنے چھپانے اور اپنی بات پہنچانے  کے جب اتنے سارے وسائل موجود ہوں تو میں نہیں سمجھتا کسی بھی جونیئر ادیب کو کوئی مشکل پیش آئے گی۔ ہاں  یہ کہہ سکتے ہیں کہ ادب میں اپنے قدم بڑھانے کیلئے کہیں بھی  پیر جمانے سے زیادہ اہم، اچھا اور معیاری ادب تخلیق کرنا ہے۔ یہ کوشش مسلسل جاری ہے ،باقی وقت اور قارئین بتائیں گے ۔
  آپ کے نزدیک ادب کیا ہے؟ اور کیا آج کی بھاگ دوڑ بھری زندگی میں انسان کو ادب کی ضرورت ہے؟ 
  ہر زمانے کے اپنے مسائل ہیں اور ہر زمانے کا ادیب حساس ہوتا ہے۔ وہ اپنے اطراف ہورہی ناانصافیوں پر اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے جسے وہ کاغذ قلم کے ذریعے دنیا کے سامنے لاتا ہے۔ اسی حساسیت کی ٹھوس شکل ادب ہے۔ آج کل کی بھاگ دوڑ بھری زندگی میں یہ ادب ہی ہے جو انسان کو کچھ دیر کے  لئے ٹھہر کر ذرا سانس لیتے ہوئےبہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ادب کی ضرورت ہر زمانے میں رہی ہے اور اس دور میں بھی ہے بلکہ اب ادیب کی ذمہ داریاں زیادہ بڑھ گئی ہیں۔  اسےاقتدار سے لوہا لیتے ہوئے اپنی بات کہنی ہے۔ سوشل میڈیا نے کافی کچھ تبدیل کردیا ہے ، اس صورتحال سے بھی بہتر ادب کی تخلیق اور ترسیل کے ذریعے نکلا جاسکتا ہے۔ 
  عصری ادبی منظر نامے میں شاعر و ادیب کا کردار بیان کیجیے ـ 
  ایسے دور میں جب تقریباً تمام کا تمام میڈیا ، گودی میڈیا بن گیا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ صرف اور صرف شاعر و ادیبوں سے امید قائم ہے کہ وہ اپنا کردار ایمانداری سے نبھائیں گے۔ وہ ایسا کر بھی رہے  ہیں لیکن یہ ایک مکمل تحریک اب تک نہیں بن سکی ہے مگر مجھے امید ہے کہ ملک کی ہر زبان کے شاعر و ادیب گودی میڈیا کا تریاق ڈھونڈ ہی لیں گے ۔  
کیا متفق ہیں کہ عصری  افسانہ کا معیار کم ہو رہا ہے؟اگر ہاں تو چند ایک وجوہات مختصراً بتائیں ـ ؟
  جب ہر کوئی ’من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو‘ کے مصداق چلنے لگے گا تو ادبی صورتِ حال کیا ہوگی آسانی سے تصور کیا جاسکتا ہے۔میں اس پر مزید کچھ نہیں کہوں گا۔
 نئے قارئین پیدا ہوں اس کے لیے آپ کیا کرنا چاہیں گے؟ 
  ایک زمانہ تھا جب بڑے ادیب بچوں کا ادب خصوصی طور پر تخلیق کیا کرتے تھے لیکن آج بڑے ادیب اس جانب دھیان ہی نہیں دیتےجس کی وجہ سے بچوں کے ادب کا معیار روز بروز گرتا جارہا ہے۔ جب تک بچوں کے لئے اچھا اور معیاری ادب تخلیق نہیں کیا جائے گا تب تک بچے پڑھنے کی جانب راغب نہیں ہوں گے اور نا ہی نئے قارئین پیدا ہوں گے۔ سینئر ادیبوں کو اس ضمن میں سوچنا چا ہئے اور بچوں کیلئے خصوصی طور پر ادب کی تخلیق کی جانب راغب ہونا چاہئے۔
  موجودہ حالات میں نوجوان ادیبوں کا کردار 
  اپنی تخلیقات میں موجودہ حالات کو موضوع بنائیں۔جتنا موجودہ حالات پر لکھیں گے اتنی ہی زیادہ تخلیقات کی اہمیت بڑھے گی۔ساتھ آنے والی نسل کے لئے یہ تخلیقات ایک طرح کے ’ریفرنس  پوائنٹ ‘ کا کام کریں گی۔

poets writers Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK