اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آج کا دَور ابتدائے آفرینش کے بعد کے ہر دور سے مختلف، عجیب و غریب اور حیران کن ہے۔ انسانی عرصۂ حیات کم ہورہا ہے اطلاعات بڑھ رہی ہیں
EPAPER
Updated: July 06, 2025, 3:19 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آج کا دَور ابتدائے آفرینش کے بعد کے ہر دور سے مختلف، عجیب و غریب اور حیران کن ہے۔ انسانی عرصۂ حیات کم ہورہا ہے اطلاعات بڑھ رہی ہیں
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آج کا دَور ابتدائے آفرینش کے بعد کے ہر دور سے مختلف، عجیب و غریب اور حیران کن ہے۔ انسانی عرصۂ حیات کم ہورہا ہے اطلاعات بڑھ رہی ہیں ، گھڑی سب کے پاس ہے وقت کسی کے پاس نہیں ، رابطے کے ذرائع اور اُن کا معیار بڑھ گیا ہے پھر بھی رابطے کم ہورہے ہیں اور بھلائی بُرائی کی تمیز اور کھرے کھوٹے کا فرق مٹ رہا ہے۔ یہ اور ایسی تمام باتوں کو ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ شدید تضادات کا دور ہے اور ایسا نہیں کہ یہ کوئی عبوری دور ہے اور آج نہیں تو کل ہم سب پرانے ڈھرے پر واپس آجائینگے۔ تغیرات بالخصوص تکنالوجی پر انحصار نہ صرف یہ کہ آئندہ بھی جاری رہے گا بلکہ نت نئے تغیرات سے انسان کو گزارتا رہے گا۔ کیا ہم نے اس کی تیاری ہے؟
تکنالوجی کیلئے بھی انسان پوری طرح تیار نہیں تھا۔ انٹرنیٹ آگیا، دُنیا مٹھی میں آگئی مگر اس سے جو نقصانات ہونے تھے وہ ہورہے ہیں ، ان سے بچنے کی تیاری نہ کل تھی نہ آج ہے۔ اس کا احساس بھی نہیں ہے۔ اب یہی دیکھئے کہ سائنسدانوں نے ٹی وی، کمپیوٹر، ٹیبلیٹ اور موبائل وغیرہ کے ذریعہ انسان جو کچھ بھی سنتا ہے، پڑھتا ہے اور دیکھتا ہے اس کی مقدار کو ناپنے کی کوشش کی تو اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ ۷۴؍ جی بی یومیہ کے برابر ہے۔ عام فہم زبان میں سمجھنا ہو تو کہہ سکتے ہیں کہ ۵۰۰؍ سال پہلے کا تعلیم یافتہ انسان کتابوں کے مطالعے، ایک دوسرے سے رابطے کے ذریعہ ملنے والی معلومات اور ہونے والی گفتگو وغیرہ کے ذریعہ ۷۴؍ جی بی کا ڈیٹا پوری زندگی میں حاصل کرتا تھا جسے آج کا انسان یومیہ حاصل کررہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ انسانی دماغ قدرت کی غیر معمولی نعمت ہے جسے آج تک پوری طرح سمجھا نہیں جاسکا ہے اس لئے دماغ بہت کچھ قبول کرلیتا ہے اور جلدی تھکتا نہیں ہے مگر دماغ پر اتنا بوجھ ڈالنا کہ وہ لگاتار مصروف رہے اور موصولہ اطلاعات کو تسلسل کے ساتھ انگیز کرتا رہے، اپنے دماغ کے ساتھ اور خود اپنے ساتھ کی جانے والی سخت ترین ناانصافی ہے۔
دماغ کی صلاحیت کتنی ہی اعلی ہو، موبائل، کمپیوٹر اور ٹیب وغیرہ استعمال کرنے والوں کو طے کرنا ہوگا کہ اُنہیں تکنالوجی کے اِن حیرت انگیز مظاہر کے ساتھ روزانہ کتنا وقت اور فطری انداز میں کتنا وقت گزارنا ہے جیسا کہ اب سے پہلے کے ادوار میں گزارا جاتا تھا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ اطلاعاتی آلات کو ایک دلچسپی، اضافی مشغلہ یا مختلف النوع ضرورتوں کے تحت قبول کیا جاتا مگر ہوا یہ کہ اسے واحد دلچسپی کے طور پر قبول کرلیا گیا جس کا نتیجہ ہے کہ بچے میدان میں جاکر کھیلنا کودنا اور دھما چوکڑی مچانا نہیں چاہتے، نوجوان اپنے دماغ سے سوچنا نہیں چاہتے اور عملاً تکنالوجی کو اپنا دماغ ماننے لگے ہیں ، خواتین نے باورچی خانے کے تجربوں سے سیکھنے کا سلسلہ موقوف کرکے تکنالوجی کے تجربوں کو اپنانا شروع کردیا، بزرگوں نے وقت گزاری کیلئے اخبار پڑھنا، کتابوں کا مطالعہ کرنا، افراد خانہ اور پڑوسیوں سے گفتگو کرنا، بچوں کو سکھانا وغیرہ سے منہ موڑ کر صرف اور صرف موبائل سے لو لگانا معمول بنالیا ہے۔ بہ الفاظ دیگر ہر عمر کے لوگوں کے پاس اگر یہی مشغلہ ہے کہ کچھ نہ کچھ دیکھتے، سنتے اور اسکرین پر پڑھتے رہیں تو دماغ کتنی اطلاعات کا ڈیٹا پروسیس کریگا اور کب تک کرتا رہے گا اس پر غور تو کیا ہی جانا چاہئے۔ یہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ دماغ اور اعصابی نظام چاہے کتنا ہی مضبوط ہو، اُس کیلئے آرام ناگزیر ہے اور آرام کا ایک معنی یہ ہے کہ کم ڈیٹا کے ساتھ زندگی گزار نے کا فن سیکھ لیا جائے ۔