Inquilab Logo

سوالوں کے جواب کہاں ہیں ؟

Updated: May 08, 2024, 1:14 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

وزیر اعظم نریندر مودی جتنا سابقہ انتخا بات میںسرگرم اور فعال تھے اُتنا ہی اب بھی ہیںمگر اُن کی تقریریں بے رس اور بے روح ہوگئی ہیں ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 وزیر اعظم نریندر مودی جتنا سابقہ انتخا بات میںسرگرم اور فعال تھے اُتنا ہی اب بھی ہیںمگر اُن کی تقریریں  بے رس اور بے روح ہوگئی ہیں ۔ عوام میںبھی اُن کی تقریریں  زیر بحث نہیں  ہیں ۔ اُنہوں  نے موضوعات بدل کر بھی دیکھ لیا مگر اس سے بھی کوئی فرق نہیں  پڑا۔ دیگر طبقات کی بات تو جانے دیجئے، عوام کا وہ طبقہ بھی پُرجوش نہیں  ہے جو اُن کی تقریروں  پر اُچھل جاتا تھا اور بے ساختہ ’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘ کا نعرہ لگاتا تھا۔ ہم نے اپنے طور پر اس کا تجزیہ کرنے اور اس صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کی تو محسوس ہوا کہ وزیر اعظم وہ نہیں  بول رہے ہیں  جو عوام سننا چاہتے ہیں ۔ بی جے پی کے کارکنان اور ووٹرس بھی خاموش خاموش سے ہیں  جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں  کہ پہلے دو مراحل میں پولنگ فیصد میں کمی کو سمجھنا ہو تو  مودی کی ریلیوں  کی کیفیت کو سمجھا جائے اور ریلیوں  کی کیفیت کو سمجھنا ہو تو پولنگ فیصد میں  کمی کو سمجھا جائے۔ سوال یہ ہے کہ یہ نوبت کیوں  آئی؟ 
 اس سوال کے جواب میں  کئی باتیں کہی جاسکتی ہیں ، مثلاً ۲۰۱۴ء میں  دکھائے گئے خوابوں  اور کئے گئے وعدوں  کی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد کو یقین سا ہوگیا تھا کہ حالات یکسر بدل جائینگے اور ملک کی ترقی اپنی مثال آپ ہوگی۔ یہ نہیں  ہوا۔ اس کے باوجود ۲۰۱۹ء میں  بی جے پی کو ۲۰۱۴ء سے زیادہ شاندار کامیابی ملی۔ اِس کی دو وجوہات تھیں ۔ ایک تو پلوامہ اور بالاکوٹ کا اثر تھا، دوسرا یہ احساس تھا کہ پانچ سال کافی نہیں  ہوتے، ایک موقع اور دینا چاہئے۔ سو وہ موقع دے دیا گیا۔اس سے بی جے پی کا حوصلہ بڑھا اور خود اعتمادی میں  اضافہ ہوا مگر عوام کا حوصلہ پست ہونے اور اعتماد لڑکھڑانے لگا۔ ایک ایک کرکے مزید پانچ سال گزر گئے جن میں  بے روزگاری بڑھی، مہنگائی آسمان چھونے لگی، الیکٹورل بونڈ کا بھانڈا پھوٹا، غربت اور بھوک کے عالمی اِنڈیکس میں  ملک پیچھے ہوتا چلا گیا، کسانوں  اور پہلوانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی سے عوام میں  اضطراب پیدا ہوا، اگنی ویر جیسی اسکیم نے اُن تمام ریاستوں  میں  بی جے پی کے تعلق سے تکدر پیدا کیا جہاں  کے نوجوان فوج میں  بھرتی کیلئے روزانہ صبح سویرے اُٹھتے ہیں  اور اپنے اندر وہ اہلیت پیدا کرنے کیلئے پسینہ بہاتے ہیں  جو فوج میں  بھرتی کیلئے درکار ہوتی ہے، پرچہ لیک کے معاملات اکا دکا واقعات تک محدود نہیں  رہے، جن کو بھرشٹ کہا گیا اُنہیں  اپنی پارٹی میں  شامل کرلیا گیا یا اُن کے ساتھ اتحاد کرلیا گیا، ایسا پے در پے ہوا جس سے عوام بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوئے۔ یہ اور ایسی کئی باتوں  کی وجہ سے اُن میں  بے دلی پیدا ہوئی جس کا نتیجہ تھا کہ وہ ووٹ دینے نہیں  گئے اور اگر گئے تو کہا نہیں  جاسکتا کہ اُنہوں  نے بی جے پی کو ووٹ دیا یا کسی اور پارٹی یا اتحاد کو۔ 
 کیا وزیر اعظم اپنی دس سالہ کارکردگی پر بات نہیں کرسکتے؟ کیا کانگریس اور دیگر کو کوسنے ہی سے وہ اپنی پارٹی کے ووٹروں  کو جوش دلا سکتے ہیں  جبکہ یہ کوشش بے سود ثابت ہورہی ہے؟ افسوس کہ اُن کی تقریروں  میں  ’’دوسروں ‘‘ ہی کا گلہ ہے، ’’اپنی‘‘ کارکردگی کی تفصیل نہیں  ہے۔ کل، تیسرے مرحلے کی تکمیل کے ساتھ ہی کم و بیش نصف الیکشن مکمل ہوچکا ہے اور آثار و قرائن بتاتے ہیں  کہ بی جے پی کی حالت خستہ ہے، اُن ریاستوں  میں  بھی جہاں  ۱۴ء اور ۱۹ء میں  اُس کا بول بالا تھا۔ کیا اس کی وجہ سے وزیر اعظم حکمت عملی بدلیں  گے؟ کیا اُن کی تقریریں  اس قابل ہوں گی کہ اُنہیں  وزیر اعظم کی تقریر کہنے میں  عوام کو شرمندگی نہ ہو؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK