Inquilab Logo

بی جے پی کا منشور شخصیت پرستی کا مظہر

Updated: April 29, 2024, 1:03 PM IST | Sevanti Nian | Mumbai

بی جے پی کے انتخابی منشور میں یکساں سول کوڈ، ایک ملک ایک انتخاب اور کرپشن مخالف جنگ پر زوردیا گیاہے۔ بقیہ حصہ میں بلند بانگ دعوؤں اور جھوٹے وعدوں کو دوہرایا گیاہے۔ اس مضمون میں اس منشور کے تین اہم موضوعات کو سمجھیں:

Photo: INN
تصویر:آئی این این

تقریباً دو ہفتے قبل بی جے پی نے اپنا انتخابی منشور’’مودی کی گیارنٹی‘‘ جاری کیا جس کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ بی جے پی اب ایک سیاسی پارٹی نہیں  رہی، بلکہ ایک ایسی جماعت میں  تبدیل ہوچکی ہے جہاں  کسی ایک شخص کو حد سے زیادہ فوقیت دی جاتی ہے۔ جاری کردہ منشور اسی ’’شخصیت پرستی‘‘ کا مظہر ہے۔ اس منشور میں  پچھلے پانچ دس برسوں  میں  بی جے پی اور این ڈی اے حکومت کے ذریعے انجام دیئے گئے کاموں  کا تذکرہ موجود ہے۔ بی جے پی نے اپنی حکومت کی اسکیموں  اور پالیسیوں  کی خامیوں  کو ڈھکنے اور چھپانے کی پوری کوشش کی ہے اور اس کے سماجی اور معاشی خمیازہ کی پروا کئے بنا ان پالیسیوں  اور اسکیموں  کو جاری رکھنے کے ارادہ کا اظہار کیا ہے۔
 منشور ’’مودی کی گیارنٹی‘‘ میں  یکساں  سول کوڈ اور ایک ملک ایک انتخاب، ان دو موضوعات پر خوب توانائی خرچ کی گئی ہے جو میرے مطابق توانائی کا ضیاع ہے۔ دونوں  ہی بل کی قانون سازی اور انہیں  پاس کرانے کیلئے دستور میں  بڑے پیمانے پر ترامیم کرنے کی ضرورت ہوگی(جوکہ آسان نہیں  ہے)، اس کے باوجود بی جے پی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ۔ اس کے ذریعہ بی جے پی تین اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے: اول، ملک میں  ایک ایسا سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ تیار کرنا جس میں  زیادہ تر اختیارات مرکزی حکومت کے پاس ہوں ۔ دوئم، پوری آبادی کو صرف ایک سماجی رنگ میں  رنگ دینا اور حتی المقدور ان کے سیاسی رویہ کو کنٹرول کرنا۔ سوئم، وزیراعظم کا نام نہاد ’’کرپشن مخالف جنگ‘‘ کا ذاتی ایجنڈا جس کے ذریعہ وہ اپوزیشن لیڈران کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں ۔ ماسوا اس کے، مودی کی گیارنٹی میں  کچھ بلند بانگ دعوؤں  اور جھوٹے وعدوں  کو اتنی دفعہ دوہرایا گیاہے کہ پڑھ کر بوجھل پن کا احساس ہوتا ہے۔ اس نے پرانے نعروں  سے چھٹکارا حاصل کرکے نئے نعروں  کو راہ دی ہے۔ مثلاً ’’اچھے دن آنے والے ہیں ‘‘ کے بجائے ’’ترقی یافتہ ہندوستان(وِکسِت بھارت)‘‘ کا نعرہ شامل کیا گیا ہے جیسے پچھلے دس سال میں  ہم ترقی پزیر ممالک کی فہرست سے چھلانگ لگا کر ترقی یافتہ ممالک کے درمیان جگہ بنانے میں  کامیاب ہوئے ہوں ۔ مجھے اس نعرہ نما دعویٰ پر ہنسی آتی ہے۔ 
 مودی کی گیارنٹی میں  کچھ اہم وعدے کئے گئے ہیں ۔ پہلا وعدہ ہے یکساں  سول کوڈ کا۔ اس وقت ملک میں  مختلف کوڈ نافذ ہیں  جنہیں  قانونی طور پر ایک نظام کی حیثیت حاصل ہے۔ ہندو، مسلم، سکھ، پارسی، یہودی سماج کے اپنے کوڈ اور پرسنل لاء ہیں  جن میں  تفرقات پائے جاتے ہیں ۔ ان مذہبی گروہوں  کے مذہبی تہوار مختلف ہیں ، شادی، طلاق اور گود لینے کے رسوم و قوانین مختلف ہیں ، جائیداد اور جانشینی کیلئے مختلف ضوابط ہیں ، حتیٰ کہ پیدائش اور موت پر بھی مختلف رواج پائے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ خاندانی ڈھانچہ و خاندانی نظام، کھان پان، لباس اور سماجی رویے بھی مختلف ہیں ۔ کون نہیں  جانتا کہ ان مذہبی گروہوں  کے اندر بھی بے شمار گروہ ہیں  جو درج بالا پہلوؤں  میں  اپنی جدا گانہ حیثیت رکھتے ہیں ۔ یکساں  سول کوڈ ان سب گروہوں  کو یکساں  بناکر انہیں  ایک رنگ میں  رنگ دیگا۔ 
 میرا سوال ہے کہ حکومت عوام کے معاملات میں  دخل اندازی کرکے انہیں  یکساں  کیوں  بنانا چاہتی ہے؟ اورکن افراد کے ذریعے ان گروہوں  کی یکسانیت طے کرنے والے مثالی اصول تیار کئے  جائیں  گے؟ کیا اُن افراد میں  اِن متفرق گروہوں  کو مناسب نمائندگی کا حق حاصل ہوگا؟ تنوع کی قربانی دے کر یکسانیت لانا،ہر فرد کو ایک ہی ڈھانچہ میں  ڈھالنا اور ان کی زندگیوں  کو کنٹرول کرنا ایک مذموم فعل ہے۔ ہمارے پڑوسی چین نے بھی ثقافتی انقلاب کے ذریعے اس مذموم ہدف کو حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ یکساں  سول کوڈ، فرد کی شخصی آزادی کے خلاف ہے اور اس سے ہندوستان کی اہم خصوصیت ’’تنوع کے باوجود اتحاد‘‘ کی نفی ہوتی ہے۔ 
 ان مذاہب کے ذاتی قوانین/ پرسنل لاء میں  اصلاح کرنا ضروری ہے لیکن اصلاح کی چنگاری ان مذہبی گروہوں  کے اندرخود  پیدا ہونی چاہئے تبھی وہ کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ حکومت کا کام ان اصلاحات کو قانون کے ذریعے منظوری دینا ہے نہ کہ ان کے معاملات میں  دخل اندازی کرنا۔ اگر یکساں  سول کوڈ پر زوردیا گیا تو ان مذہبی اور ثقافتی گروہوں  میں  تلخ بحث چھڑ جائیگی، ایک دوسرے کے تئیں  غصہ، نفرت کے جذبات پروان چڑھیں  گے جو مستقبل میں  پرتشدد تنازعات کا رخ اختیار کرسکتے ہیں ۔
 دوسرا وعدہ ہے ’’ایک ملک ایک انتخاب‘‘ کا۔ اس بل کے ذریعہ بی جے پی علاقائی تفرقات اور ترجیحات اور رنگین ثقافتوں  کا صفایا کرنا چاہتی ہے۔ ہندوستان کا جمہوری نظام، امریکہ کے وفاقی ڈھانچہ سے متاثر ہوکر ترتیب دیا گیا تھا۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ، پچاس ریاستوں  کا وفاقی ملک ہے جہاں  ایوانِ نمائندگان کیلئے ہر دو سال، صدر کیلئے ہر چار سال اور سینیٹ کیلئے ہر چھ سال بعد انتخابات منعقد  کئے جاتے ہیں ۔ وفاقی و پارلیمانی جمہوری نظام والے ممالک مثلاً آسٹریلیا اور کینیڈا میں  بھی مرکز اور صوبوں  کے انتخابات بیک وقت منعقد نہیں  کئے جاتے۔ ’’ایک ملک ایک انتخاب‘‘ اور انتظامیہ کا پارلیمان کو جوابدہ ہونا، دو مخالف تصورات ہیں  کیونکہ اول الذکر کے اطلاق کے بعد ملک کے انتخابی کمیشن کے اختیارات کم ہو جائیں  گے جو حکومت کی منشاء کے مطابق انتخابات کا شیڈول تیار کریگا۔
 بی جے پی کے انتخابی منشور میں  تیسرا وعدہ ہے ’’کرپشن مخالف مہم‘‘۔ کرپشن کے خلاف اس نام نہاد جنگ کا مقصد بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں  کے علاوہ دیگر سیاسی پارٹیوں  کو تباہ کرنا اور اپوزیشن لیڈران کو میدانِ سیاست سے جیل بھیجنا ہے۔ اس کی زد میں  آکر کئی علاقائی پارٹیاں  اپنی اہمیت اور شناخت کھو بیٹھی ہیں ۔ اس لڑائی میں  بی جے پی قانون کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے دیگر پارٹیوں  کو نشانہ بنارہی ہے۔
 سوال یہ ہے کہ آخر بی جے پی یونیفارم سول کوڈ اور ایک ملک ایک انتخاب کے بل  پر بضد کیوں  ہے؟ کیونکہ ایودھیا میں  رام مندر کی تعمیر کے باوجود بی جے پی نئے موضوعات کی تلاش میں  ہے تاکہ وہ شمالی ہند کے عوام، قدامت پسند، روایات کی پابند، ذات پات پر یقین رکھنے والے اکثریتی گروہ کی توجہ حاصل کرسکے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK