Inquilab Logo

سیاسی مخالفین کو جیل بھیجنے کا حربہ اور ہماری جمہوریت

Updated: May 12, 2024, 1:52 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

حکمراں جماعت یہ سمجھانا چاہتی ہے کہ وہ جو کچھ بھی کررہی ہے جمہوری تقاضوں کے تحت کررہی ہے جبکہ دُنیا جانتی ہے کہ ان اقدامات کا مفہوم کیا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

اروند کیجریوال کو محض چند روز کیلئے ضمانت پر رِہا کیا گیا ہے۔ یہ ایسے وقت میں  ہوا جب انتخابی مہم کے خاتمے میں  زیادہ وقت نہیں  رہ گیا ہے۔ انتخابی مہم مکمل ہونے کے بعد اُنہیں  واپس جیل جانا پڑیگا۔ اُن پر نہ تو الزام ثابت ہوا ہے نہ ہی عدالت نے سزا سنائی ہے مگر وہ جیل میں  رکھے گئے کیونکہ بی جے پی اُن کی ضمانت کی مخالفت کررہی تھی۔ لیکن، فاضل ججوں  نے یہ موقف اپنایا کہ کیجریوال دہلی کے چیف منسٹر ہیں  اور قومی سیاسی جماعتوں  میں  سے ایک کے لیڈر ہیں ، بلاشبہ اُن کے خلاف سنگین الزامات ہیں  مگر وہ ثابت نہیں  ہوئے ہیں ۔ اُن کا کوئی مجرمانہ پس منظر نہیں  ہے۔ وہ سماج کیلئے خطرہ بھی نہیں  ہیں ۔ عدالت کے مشاہدہ میں  یہ بات بھی رہی کہ اُن کے خلاف ۲۰۲۲ء میں  کیس رجسٹر کیا گیا تھا لیکن اس سال ۲۱؍ مارچ کو اُن کی گرفتاری عمل میں  آئی، ووٹنگ شروع ہونے سے کچھ پہلے۔
 یاد رہے کہ کیجریوال انتخابی مہم چلانے کیلئے ملنے والے وقت میں  سے ایک ماہ گنوا چکے ہیں ۔ تین مراحل کی پولنگ ہوگئی مگر وہ جیل ہی میں  رہے۔ اُن کی غیر موجودگی میں  اُن کی اہلیہ انتخابی مہم میں  شریک ہوئیں ۔ جب ۴؍ جون کو نتائج منظر عام پر آئینگے تو کیا ایسے الیکشن کو منصفانہ اور غیر جانبدارانہ قرار دیا جاسکے گا؟ سیاسی مخالفین کو  جیل بھیج کر اُن کیلئے انتخابی مہم کا دروازہ بند کردینا اور خود زوروشور سے انتخابی مہم چلانا اُنہی ملکوں  میں  ہوتا ہے جہاں  آمریت ہو۔ 
 جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ، دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ اور  بھارت راشٹریہ سمیتی کی (محترمہ) کے کویتا، یہ سیاستداں  جیل میں  ہیں  جبکہ ان میں  سے کسی پر بھی جرم ثابت نہیں  ہوا ہے۔ 
 عدالت میں  بی جے پی کی دلیل یہ تھی کہ سیاستدانوں  کو دیگر ملزموں  سے الگ کرکے نہیں  دیکھا جاسکتا اس لئے اُنہیں  انتخابی مہم کیلئے ضمانت نہیں  دی جانی چاہئے۔ اس طرح، پارٹی یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ جمہوریت کی کوئی اہمیت نہیں  ہے اور انتخابات اتفاق ہیں  مگر عدالت نے اس دلیل کو نہیں  مانا۔ کیجریوال کے کیس میں  عدالت نے جو موقف اختیار کیا اور جو فیصلہ کیا اُس کا اطلاق دیگر سیاستدانوں  پر بھی ہوتا ہے۔ ان کا بھی کوئی مجرمانہ پس منظر نہیں  ہے، وہ بھی سماج کیلئے خطرہ نہیں  ہیں  اور کیجریوال کی طرح وہ بھی سیاسی جماعتوں  کے لیڈر ہیں ۔ کیجریوال ضمانت پر رِہا ہوئے تو اُن کا پُرجوش استقبال کیا گیا جسے یقینی طور پر بی جے پی نے پسند نہیں  کیا ہوگا۔ اس کے ایک سیاستداں  نے جو کہ قومی عاملہ کے رکن ہیں ، ٹویٹ کیا کہ ’’انتخابات کے دوران کسی ایک نکتے کو اہمیت دے کر فاضل جج (اس کیلئے ’’دی لارڈ شپ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے) نے خود کو انتخابی مہم کا حصہ بنالیا ہے۔‘‘ اس ٹویٹ پر کوئی تبصرہ کرنا فضول ہے کیونکہ یہ ذہن رکھنے والے لوگ نہیں  سمجھیں  گے کہ کورٹ کی جانب سے جو کچھ بھی ہورہا ہے اُس کیلئے اُنہیں  (کورٹ کو) مجبور کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی کی اس بات کو قبول کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایسے اقدامات (گرفتاری وغیرہ) کے ذریعہ جمہوریت پر حملہ نہیں  کررہی ہے؟‘‘ اس سوال پر دو الگ الگ رائیں  پائی جاتی ہیں ۔ وزیراعظم مودی کے حامی تو اس پر کچھ بھی سننے اور سمجھنے کو تیار نہیں  ہوں  گے۔
 اگر اپوزیشن اور اس کے حامی اس معاملہ میں  بالکل ہی جانبدار ہیں  تو اُنہیں  نظر انداز کیا جاسکتا ہے مگر بیرونی دُنیا کو کیسے نظر انداز کیا جائے جو الیکشن کا حصہ نہیں  ہے مگر اُس کی رائے ہمارے بارے میں  ویسی نہیں  رہ گئی ہے جیسی کہ ایک زمانے تک ہوا کرتی تھی۔ بیرونی دُنیا کی رائے کیا ہے یہ جاننے کیلئے اُن بیانات اور تبصروں  اور رپورٹوں  پر نگاہ دوڑانی ہوگی جن کا تذکرہ اس کالم میں  موقع بہ موقع کیا جاتا رہا ہے۔ بیرونی دُنیا کا ہمارے بارے میں  یہ نظریہ بن گیا ہے کہ ہم جمہوریت نہیں  رہ گئے ہیں  بلکہ آمریت میں  تبدیل ہونے کی راہ پر ہیں ۔ فریڈم ہاؤس کہہ چکا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے سیاسی مخالفین سے نمٹنے کیلئے سرکاری اداروں  کا استعمال کیا ہے۔ یہ خیال غلط نہیں  ہے۔اس ادارے نے ہندوستان کو ’’جزوی آزاد‘‘ قرار دیا ہے۔ اس کو بھی جھٹلایا نہیں  جاسکتا۔ ایک اور ادارہ ’’دی اِکنامسٹ‘‘ ہے جس کے انٹیلی جنس یونٹ کی ’’ڈیموکریسی اِنڈیکس‘‘ (جدول برائے جمہوریت) کیلئے کسی ملک میں  شہری آزادی، تکثیریت، سیاسی ماحول اور انتخابی عمل میں  لوگوں  کی شرکت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس جدول میں  ۲۰۱۴ء میں  ہم ۲۷؍ ویں  مقام پر تھے۔ ۲۰۲۰ء میں  ہندوستان کو ’’ناقص جمہوریت‘‘ قرار دیا گیا۔ پچھلے سال مذکورہ جدول پر ہمارا مقام ۴۱؍ واں  تھا۔ اس جدول کے مرتبین کا کہنا تھا کہ ہندوستانی حکومت اپنی اقلیتوں  کو تنگ کرتی ہے۔ کیوں  اور کیسے اس کی تفصیل میں  جانا ضروری نہیں کیونکہ قارئین بخوبی واقف ہیں ۔ ایک اور ادارہ ’’سیویکس‘‘ ہے جو شہری سماج سے متعلق تنظیموں  کا عالمی اتحاد ہے۔ اس نے ۲۰۱۷ء میں  ہندوستان کو ایسا ملک قرار دیا تھا  جس میں  شہری گنجائش یعنی شہری حقوق کیلئے کام کرنے کی گنجائش کے اعتبار سے راہ مسدود ہے۔ اب اس کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں  شہری حقوق کیلئے کام کرنے کی وجہ سے مخالف ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح، اس ادارہ نے ہمارے لئے جو لفظ ماضی میں  استعمال کیا وہ تھا: Obstructed۔ اب جو لفظ استعمال کیا ہے وہ ہے: Repressed۔ کیا آخر الذکر ایسا لفظ ہے جو جمہوری ملکوں  کیلئے استعمال کیا جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں  ہے۔
 مارچ میں  اس ادارے (سیویکس) نے ہندوستان کے بارے میں  لکھا کہ یہ ملک اُن ملکوں  میں  شامل کیاگیا ہے جن پر مستقل نظر رہے گی کہ یہاں  شہری آزادی کی صورتحال کیا ہے اور پہلے سے بہتر ہوئی ہے یا نہیں ۔ ادارہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی ناقدین کو خاموش کرنے میں  کوئی کسر نہیں  چھوڑتے۔ 
 سیاسی مخالفین کو جیل میں  رکھنا اور الیکشن میں  بھی کوئی رعایت نہ دینا مخالفین کو سبق سکھانا نہیں  تو اور کیا ہے۔ یہاں  یونیورسٹی آف تھنبرگ کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے جس کی وی ڈیم رپورٹ کہتی ہے کہ گزشتہ دس سال میں  کسی اور ملک میں  ایسی غیر معمولی تبدیلی نہیں  آئی جیسی ہندوستان میں  آئی ہے۔ ان تمام رپورٹوں  کے باوجود  بی جے پی سیاسی مخالفین کو جیل بھیج کر یہ سمجھتی ہے کہ وہ جو کچھ بھی کررہی ہے، جمہوریت کو بچانے کیلئے کررہی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK