Inquilab Logo

کیا بی جےپی آئین کو قائم رکھے گی؟ یا بدل دے گی ؟

Updated: April 22, 2024, 1:15 PM IST | P Chidambaram | Mumbai

یہ سوال یونہی نہیںپیدا ہوا بلکہ وَن نیشن وَن الیکشن، یکساں سول کوڈ، شہریت ترمیمی قانون اوردیگرقوانین جنہیںمنظور کیا گیا یا آئندہ پیش کیا جاسکتا ہے، اس سوال کے محرک ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ایک منشور ان ارادوں ، عزائم، نیتوں  اورخیالات ونظریات کا تحریری اعلامیہ ہوتا ہے کہ جو عوام سے متعلق ہوتے ہیں ۔ کچھ مثالیں  جو میرے ذہن میں  آتی ہیں ، ان میں  سے ایک ریاستہائےمتحدہ امریکہ کا ۱۷۷۶ء کا ’اعلامیہ ٔ آزادی‘ اوردوسرا ۱۴۔۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو ’ٹرائسٹ وِتھ ڈیسٹنی ‘(تقدیرکے ساتھ عہد ) کے عنوان سےکی گئی جواہر لال نہرو کی تقریر ہے۔جولائی ۱۹۹۱ء کوسابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نےاپنی ایک یادگار تقریر میں ، جس نے ہندوستانی معیشت کا رخ موڑ دیا تھا ، وکٹرہیوگوکا یہ قول نقل کیا تھا کہ ’’زمین پر کوئی طاقت اس خیال کو نہیں روک سکتی جس کی آمد کا وقت آچکاہے۔‘‘ان تقریروں  اور بیانات میں کیا تھا؟ واضح اور پُر زور الفاظ میں  نئے حکمرانوں  کے عزائم کا اظہار تھا ۔
 ایک بیا ن میں بیان دینے والے کا حقیقی ارادہ پوشیدہ ہوتا ہے۔جعلی مدعی جعلی بیانات دیتے ہیں ۔ وہ بیانات جو وزیر اعظم مودی کو رہ رہ کر پریشان کررہے ہیں ،یہ ہیں :’’ ہر ہندوستانی کے بینک کھاتے میں ۱۵؍ لاکھ روپےآئیں  گے‘‘، ’’ ہر سال ۲؍ کروڑ نوکریاں  پیدا کی جائیں  گی ‘‘ ، ’’ کسانوں کی آمدنی دوگنا کی جائے گی‘‘، یہ اور اس طرح کئی دیگر اعلانات ہیں  جن کے اعتبار کی کیا حیثیت ہے اس کا اندازہ وزیر اعظم مودی کے وزیروں کےبیانات سے لگایا جاسکتا ہے جن کے بارے میں  بار بار استفسار کے بعد کچھ کہا گیا تو یہی کہ وہ انتخابی جملہ تھا۔ ملک گیر حیثیت و اہمیت رکھنے والی دو ہی پارٹیاں  ہمارے ملک میں  ہیں ۔ کانگریس اور بی جےپی ۔آخر الذکر نے ۳۰؍مارچ کو اپنی انتخابی منشور کمیٹی تشکیل دی تھی جبکہ کانگریس ۵؍ اپریل کو اپنا ا نتخابی منشور جاری کرچکی تھی۔ میں  کانگریس کے منشور کی کچھ خصوصیات پر روشنی ڈالوں گا تاکہ قارئین اور رائے دہندگان دونوں کا موازنہ کرسکیں ۔
 کانگریس نے کہا ’’ ہم دوبارہ اعادہ کرتے ہیں کہ ہندوستان کا دستور ہی ہمارے نہ ختم ہونے والے سفر میں ہمارا واحدرہنما اور ساتھی ہے۔‘‘ جبکہ عوام یہ جاننے کیلئےبے تاب ہیں کہ بی جے پی آئین کے ساتھ کیا کرتی ہے،وہ اسے قائم رکھے گی یا بدل دے گی؟ یہ سوال یونہی نہیں پیدا ہوا ہے،بلکہ اس دوران وَن نیشن وَن الیکشن ، یکساں  سول کوڈ، شہریت ترمیمی قانون (جسے سپریم کورٹ میں  چیلنج کیا گیا ہے) اوردیگرقوانین جنہیں منظور کیاجاچکا ہےیا جنہیں  پیش کرنے پر غور کیاجارہا ہے، اس سوال کے محرک ہیں ۔ بی جے پی کو یہ بات واضح کرنی چاہئے کہ وہ دستورمیں  درج پارلیمانی جمہوریت کے ویسٹ منسٹر اصولوں کی پیروی کرتی ہے یا نہیں ۔ کانگریس نے اپنے ارادے واضح کردئیے ہیں ۔ کانگریس کا وعدہ ہےکہ اس کی حکومت بننے پرملک بھر میں  ذات پرمبنی مردم شماری کرائی جائے گی اور ۵۰؍ فیصدریزرویشن کی حدکوبڑھانے کیلئے آئین میں  ترمیم کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔معاشی طورپرکمزور طبقات (ای ڈبلیو ایس) کیلئے ملازمتوں  اور تعلیمی اداروں  میں جو ۱۰؍ فیصد ریزرویشن ہے اسے تمام طبقات اور برادریوں کیلئے کھول دیاجائے گا ۔
 تعلیم ا ور ملازمت میں مساوات کو فروغ دینے کیلئےکانگریس ایک کمیشن تشکیل دے گی۔ بی جے پی کا اس معاملے میں مبہم موقف ہے، اسے اپنا موقف واضح کرنا چاہئے تاکہ عوام یہ جان سکیں کہ مساوات کے وسیع تر موضوع پردونوں  پارٹیاں کہاں  کھڑی ہیں ۔
 ہندوستان میں  مذہبی اور لسانی اقلیتیں  ہیں ۔ کانگریس کاکہنا ہے کہ وہ یہ مانتی ہےکہ حقوق انسانی کے اعتبار سے تمام ہندوستانی برابر ہیں  اور سبھی کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے اور یہاں  آمریت اور اکثریت پسندی کیلئے کوئی جگہ نہیں  ہے۔کثرت میں  وحدت، اجتماعیت اور رنگا رنگی ہندوستان کی امتیازی خصوصیات ہیں ۔ بی جےپی اس معاملے میں کانگریس پر’منہ بھرائی ‘ کا الزام لگاتی ہے۔ وہ اس لفظ کو اپنے اقلیت مخالف موقف کیلئے ’’کوڈ وَرڈ‘‘ کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
 اوسط شرح نمو (۵ء۹؍ فیصد) جسے اطمینان بخش نہیں  کہا جاسکتا، تعمیراتی سیکٹر کا جمود (جی ڈی پی کا ۱۴؍ فیصد)، افرادی قوت کی اوسط شرح (۵۰؍ فیصد) اور بڑے پیمانے پر بے روزگاری (گریجویٹس میں ۴۲؍ فیصد) وغیرہ ایسے عوامل ہیں  جن سے ہندوستان کے آبادیاتی منافع(پاپویشن ڈِویڈنڈ) کا دائرہ بھی سمٹتا جا رہا ہے۔ کانگریس نے مرکزی ملازمتوں  میں ۳۰؍ لاکھ اسامیوں  کو پُرکرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کیلئے اس نے رائٹ ٹو اپرینٹس شپ ایکٹ لانے کا اعلان کیا ہے، کارپوریٹ میں ملازمت کیلئےخصوصی اسکیم لائی جائےگی، اسٹارٹ اَپ کیلئے فنڈ قائم کئے جائیں  گے۔ ان اعلانات کی وجہ سے ملک کے نوجوان پُر جوش ہیں ۔
 انتخابی مراحل میں خواتین پُرجوش حصہ دار ہوتی ہیں ۔ وہ انتخابی مہموں  میں تقریریں  سنتی ہیں  اور ان پرگفتگو کرتی ہیں ۔ کانگریس نے جن اسکیموں  کا اعلان کیا ہے ان میں مہا لکشمی اسکیم (ہر غریب خاندان کو سالانہ ایک لاکھ روپے)، منریگا کے تحت یومیہ بھتہ، ۴۰۰؍، مہیلا بینک کا قیام اور مرکزی ملازمتوں  میں  خواتین کیلئے ۵۰؍ فیصد ریزرویشن شامل ہیں ۔ دیکھا جارہا ہےکہ ان اسکیموں کی طرف خواتین اور نوعمر بہنیں  اور بیٹیاں  راغب ہورہی ہیں ۔
 یہاں سب سے اہم موضوع بی جے پی کا اکثریت پسند طرز  اقتدار ہے۔ آئین میں  یہ بات پوری وضاحت کے ساتھ درج ہے کہ ہندوستان ریاستوں کی ایک متحدہ اکائی(یونین آف اسٹیٹس) ہے۔ ’ایک ملک ایک الیکشن‘ کا خیال کئی شبہات اور سوالات کو جنم دیتا ہے۔اس سے مستقبل میں  جو کچھ حاصل ہوگا وہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں  ہوسکتا کہ ایک الیکشن، ایک حکومت، ایک پارٹی اور ایک لیڈر۔ کانگریس کے منشور میں  ’فیڈرلزم ‘(وفاقیت ) پر جو باب ہےاس میں  ۱۲؍ نکات ہیں ۔ کیا بی جےپی ان میں  سے کسی ایک پر بھی اتفاق کرتی ہے؟ ان میں  سب سے اہم اور دوررَس نتائج کا حامل وعدہ کچھ شعبوں  میں  قانون سازی کا اختیار مرکز سے ریاستوں  کو منتقل کرنے کا ہے۔ 
 جہاں تک میرا خیال ہے، سب سے اہم پہلو الیکشن لڑنے والی پارٹیوں کاآئین، پارلیمانی جمہوریت، حقوق انسانی، آزادی اور حق رازداری اور آئینی اخلا ق سےوابستہ رہنے کا عہد ہے۔ میرا ووٹ اس امیدوار کیلئے ہوگاجو ان اصولوں پر قائم رہنے کا حلف لے گا ۔

nrc Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK