Inquilab Logo

خالصتانی ایک بار پھر سرگرم

Updated: March 28, 2023, 9:40 AM IST | kamal hasan | Mumbai

پنجاب میں غیر ممالک میں ساکن سکھ قوم میں خالصتانیوں کی سرگرمیاں ایک بار پھر عروج پر پہنچ گئیں۔ پنجاب کسان سکھ برادری کا سب سے عظیم زرعی خطہ ہے۔ کوئی ڈیڑھ سال پہلے سکھ قوم نے ایک الگ خالصتان کیلئے بیرونی ممالک میں سکھ برادری کے درمیان ریفرینڈم کی سرگرمیاں شروع کیں ۔ مقصد دنیا کو یہ بتانا تھا کہ سکھ من حیث القوم اپنی شناخت بنانا چاہتے ہیں۔

khalistani supporters
خالصتانی

پچھلے ہفتہ ہندوستانی میڈیا میں یہ خبرآئی کہ لندن میں ہندوستانی سفارت خانہ پر کچھ خالصتانی سرگرم عناصر نے ترنگے کی جگہ خالصتانی جھنڈا  لگانے کی کوشش کی جسے ناکام بنا دیا گیا۔ ویسے سوشل میڈیا کے بعض ذرائع ایک طویل  عرصہ سے بتا رہے تھے کہ بیرونِ ملک میں کئی جگہ خالصتانی ایک بار پھر سرگرم ہو چکے ہیں۔ ہندوستانی میڈیااس معاملہ میں خاموش تھا۔ پچھلے ایک سال سے بھی زیادہ عرصے سے بیرونِ ملک ساکن خالصتانی کارکن بہت تیزی سے کام کر رہے ہیں، ہم اس پر تھوڑی دیر بعد بات کریں گے، فی الحال اس معاملہ کی سنگینی کے کچھ اور واقعات پر بات کرتے ہیں۔
 اس میں شک نہیں کہ ہندوستان کی آزادی سے کچھ عرصہ قبل تک سکھ خود کو ایک الگ مذہب سمجھتے تھے ، لیکن زندگی کی باقی ضروریات کے بارے میں ملک کے دیگر شہریوں میں اور ان میں  حد درجہ یکسانیت تھی۔ البتہ نزاع کی کیفیت  اس وقت سے ہوئی جب بھنڈراں والا کے دور میں ایک الگ ملک خالصتان بنانے کے نام پر پنجاب میں مسلح جد و جہد شروع ہوئی ۔ اسی کے بعد اندرا گاندھی کا قتل بھی ہوا۔ یقیناًسکھ برادری کے بڑے حصہ میں گولڈن مندر پر کارروائی اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت کا بھی افسوس تھا۔ یہ بھی ہوا کہ ہندوئوں کے ایک حلقہ میں ہندوستانی فوج کی کارروائیوں پر بہت فخربھی کیا جاتا تھالیکن سکھ برادری اور ہندوستانیوں کے ایک بڑے حلقے میں رفتہ رفتہ ان زخموں پر نمک پاشی بھی کی گئی مگر حالات بدلے۔ اس کے بعد فوج اور زندگی کے دیگر شعبوں میں سکھ برادری کو ان کا حصہ دیا جاتا رہا۔پھرجب ڈاکٹر منموہن سنگھ ملک کے وزیر اعظم بنے اور دنیا میں صحیح معنوں میں ان کی وجہ سے ہندوستان کا نام روشن ہوا تو سکھ برادری بھی اپنا غم بھول گئی۔
 آزاد ہندوستان کی جب بھی تاریخ لکھی جائے گی اس میں ایک نام بہت اہم ہوگا۔ یہ نام بی جے پی کےسبکدوش لیڈر لال کرشن اڈوانی کا ہوگا۔ بابری مسجد کی جگہ پر ایک رام مندر بنانے کے نام پر انہوں نے جو رتھ یاترا شروع کی اس نے نئی نئی علتوں کو جنم دیا۔ ان میں سے ایک ان کا مشہور فارمولہ کلچرل نیشنلزم بھی تھا۔ اس کی تفصیل بیان کی  جائے توبات بہت طویل ہو جائے گی۔ مختصر یہ کہ انہوں نے یہ فارمولہ بنایا کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والا ہر شخص چاہے اس کا کوئی بھی مذہب ہو، ہر حال میں ہندو ہی ہوگا۔ ہندوستان میں ہر طرح کے مذاہب ہیں۔ ظاہر ہے ان کے ماننے والے اس فارمولے سے متفق نہیں تھے۔ اڈوانی کے اسی فارمولے سے ہندوتوا کا بھی جنم ہوا۔
 پھر جب ہندوتوا برادری نے یہ نعرہ بلند کیا کہ اگر پاکستان ، افغانستان، ایران اور ترکی اپنی مذہبی اکثریت کی وجہ سے مسلم دیش مانے جاتے ہیں تو ہندوستان کو بھی ہندو راشٹر کیوں نہ کہا جائے ۔ یہاںبھی تو مذہبی طور پر ہندو ہی اکثریت میں ہیں۔ جب یہ شور بہت زیادہ بلند ہونے لگا تو سکھ برادری کو بھی خیال آیا کہ اگر مذہب کے نام پر پاکستان اور اسرائیل بن سکتے ہیں تو پھر مذہب ہی کے اعتبار سے ایک ملک یعنی خالصتان کیوں نہیں بن سکتا۔ یاد رکھئے کہ آسٹریلیا اور امریکہ میں سکھ بہت مضبوط اور خوشحال برادری کے طور پر موجود ہیں۔ جہاں کہیں بھی زراعتی شعبہ موجود ہے، سکھ برادری کی اہمیت خود بخود بڑھ جاتی ہے۔ کینیڈا میں تو سکھ برادری حکومت کا ایک اہم حصہ بھی ہے۔ امریکہ میں بھی سکھوں کے بڑے بڑے فارم اورکھیت ہیں۔ امریکہ میں بھی سکھ برادری کی عزت اور اہمیت ہے ۔
 پنجاب میںغیر ممالک میں ساکن سکھ قوم میں خالصتانیوں کی سرگرمیاں ایک بار پھر عروج پر پہنچ گئیں۔ پنجاب کسان سکھ برادری کا سب سے عظیم زرعی خطہ ہے۔ کوئی ڈیڑھ سال پہلے سکھ قوم نے ایک الگ خالصتان کیلئے بیرونی ممالک میں سکھ برادری کے درمیان ریفرینڈم کی سرگرمیاں شروع کیں ۔ مقصد دنیا کو یہ بتانا تھا کہ سکھ  من  حیث القوم اپنی شناخت بنانا چاہتے ہیں۔ اس کیلئےانہوں نے  بیرونی  ممالکوں میں سکھوں کی رائے  شماری کرانا شروع کی۔ معاملہ کچھ ایسا تھا کہ یورپ ، آسٹریلیا ، کینیڈا اور امریکہ میں سکھوں کے اس موقف کی کوئی مزاحمت نہیں ہوئی، کیونکہ اس مسئلہ سے کسی دوسرے ملک میں کوئی انتشار یا برہمی نہیں پیدا ہونے والی تھی۔ حکومت برطانیہ نے تو سکھوں کو ووٹنگ کرانے کے لئے جگہ بھی الاٹ کی۔ وہاں تقریباًسو فیصد سکھوں نے اس رائے  شماری میں حصہ لیا۔ اس کے بعد اب امریکہ میں بھی ایسی ہی رائے شماری کی ضرورت دیکھی جا رہی ہے۔ آسٹریلیا میں بھی سکھ کافی بڑی تعدا میں ہیں۔ وہاںکے سکھوں نے وہاں بھی اس کی صورت حال پیدا کی۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید وہاں موجود دیگر ہندوستانیوں نے اس کی مخالفت کی۔ اس لئے وہاں کچھ لڑائی جھگڑے بھی ہوئے۔ ہمارے یہاں ایک دو بار ایسی خبریں سنائی دیں کہ آسٹریلیامیں کچھ سکھوں نے ہندو مندروں پرحملے کئے ہیں۔ اس کا پس منظر یہی تھا جو یہاں بیان کیا گیا ہے۔ حال ہی میں آسٹریلیا کے وزیر اعظم ہندوستان تشریف بھی لائے تھے۔ انہوں نے مودی اسٹائل میں رتھ میں سوار ہو کر ہندوستان اور آسٹریلیا کا میچ بھی بڑے چائو سے دیکھا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مودی جی نے اس سلسلہ میں ان سے کوئی بات بھی کی تھی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ بات چیت ہوئی بھی تھی یا نہیں کیونکہ کسی بیانیہ میں ایسا کوئی ذکر نہیں دیکھا گیا۔ پرہمیں لگتا ہے کہ بات چیت نہیں ہوئی تھی اور سکھ برادری کا کوئی ذکر بھی نہیں ہوا تھا کیونکہ یہ آسٹریلیا کا ایک اندرونی معاملہ بھی تھا۔ ہمیں بالکل نہیں لگتا کہ ہندوستان کی سکھ برادری کی اکثریت اس ریفرینڈم سے متاثر ہو سکتی ہے۔ وہ اب بھی اسی ملک میں پوری طرح ضم ہے۔ لیکن جیسا کہ کہا گیا بیرون ملک بسی ہوئی سکھ برادری بہت خوشحال بھی ہے۔ ہندوستان میں مودی سرکار کی ایک سال میں دو کروڑ روزگار دینے کی اسکیم میں ناکامی اور پنجاب میں ان کی زرعی پالیسی کی ناکامی کے بعد بھی جب پنجاب کے نوجوان سکھ روزگار کی تلاش میں ملک سے باہر جاتے ہیں تو یہ خوشحال سکھ ان کی بہت مدد بھی کرتے ہیں۔ اس لئے بیرون ملک کے سکھوں کا یہاں اثر بھی بڑھ رہا ہے، اس سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ ہندوستان ایک کثیر لسانی اور مذہبی ریاست ہے۔ یہاں ایکتا بھی موجود ہے اور تضادات بھی نمایاں ہیں۔ اگر ہندوتوا کا زور بڑھا تو خالصتان ہی نہیں اس قسم کے دوسرے ایجنڈے بھی سامنے آتے جائیں گے۔ n

Khalistani Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK