Inquilab Logo

مین اسٹریم میڈیا کے طور طریقے اور ہندوستانی سماج

Updated: August 03, 2020, 6:52 AM IST | Aakar Patel

قومی ذرائع ابلاغ نے اپنی ترجیحات کو یکسر بدل دیا۔ اب ان کے نزدیک سماج کو متحد رکھنا اہم نہیں بلکہ ملک کے سیاسی بیانیہ کے زیر اثر رہنا اہم ہو گیا ہے۔

Manrega - Pic : INN
من ریگا ۔ تصویر : آئی این این

قومی میڈیا یعنی بڑے اور مستحکم صحافتی ادارے۔ ان میں کافی حد تک اخبارات کو شامل کیا جاتا ہے جبکہ کچھ حد تک ٹی وی چینلوں کو۔ میڈیا کے نئے ذرائع مثلاً ویب سائٹ اور ایپ کا طبع شدہ شکل میں کوئی پروڈکٹ مارکیٹ میں نہیں ہوتا، چنانچہ انہیں اب تک مین اسٹریم میڈیا، یا، قومی میڈیا کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی ہے، یہ الگ بات کہ ان میں سے بعض نے اپنی مقبولیت کا قابل قدر ریکارڈ قائم کیا ہے مثلاً دی وائر اور اسکرول۔ یہ دو ادارے کم و بیش ایک دہائی سے سرگرم عمل ہیں اور ان سے وابستہ قارئین کا حلقہ خاصا وسیع ہے۔
 میڈیا کے ان نئے ذرائع کے پاس رپورٹنگ کا اتنا بڑا عملہ نہیں ہے جتنا کہ مین اسٹریم میڈیا کے پاس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان اداروں (ویب سائٹس) نے مین اسٹریم میڈیا کی وہ جگہ پُر نہیں کی ہے جو کہ بڑی تیزی سے خالی ہوئی ہے۔ ہندوستان میں میڈیا کی ریڑھ کی ہڈی اشتہارات ہیں۔ زرِ سالانہ اور یومیہ قیمت (کو َر پرائز) سے ہونے والی آمدنی بہت کم ہوتی ہے۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں اخبارات بہت کم قیمت پر فروخت ہوتے ہیں۔ اب حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ مجموعی اشتہارات میں اخبارات کا حصہ کم ہوتا جارہا ہے۔ ۲۰۱۹ء میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ اشتہارات کا بڑا حصہ ڈجیٹل پلیٹ فارمس کو حاصل ہوا ۔ ڈجیٹل کی آمدنی میں یہ کوئی معمولی اضافہ نہیں تھا۔ ہندوستان میں اشتہارات پر خرچ ہونے والی رقومات کا ۲۷؍ فیصد ڈجیٹل پلیٹ فارمس کو ملا جبکہ اخبارات اور میگزینس یعنی پرنٹ میڈیا کے حصے میں ۲۲؍ فیصد آیا۔ ٹی وی کو پہلے بھی سب سے زیادہ اشتہارات حاصل تھے اب بھی اس کا حصہ ۴۳؍ فیصد تھا۔ ۲۰۲۰ء کیلئے یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو ڈجیٹل کے مقابلے میں کم ہی اشتہارات حاصل ہونگے۔ کووڈ۔۱۹؍ کی وجہ سے پیدا شدہ حالات نے اس عمل کو تیز تر کردیا ہے۔ 
 ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ڈجیٹل یعنی صرف دو ادارے۔ گوگل اور فیس بک۔ ملک میں ان اداروں کو اب ٹائمس آف انڈیا، ہندوستان ٹائمس یا کسی بھی دوسرے بڑے اخباری ادارے سے زیادہ اشتہاری آمدنی ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہنے کا امکان ہے جس کے نتیجے میں اخبارات متاثر ہوں گے اور کئی اخبارات اپنا سلسلۂ اشاعت موقوف کرنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک صورتحال ہے جسے ہم اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
 دوسری صورتحال یہ ہے کہ میڈیا نے اکثریت نوازی کا شعار اپنالیا ہے۔ اسے بھی ہم اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایک طرح کی ہندوتوا نوازی ہے۔ کیا ہے یہ ہندوتوا اور اکثریت نوازی؟ اس کے ذریعہ یہ باور کرانا مقصد ہے کہ سماج کے ایک طبقے کو برتری حاصل ہو جو اس امتیازی طرز عمل کا حقدار ہے۔ اس کا دوسرا مقصد یہ سمجھانا ہے کہ دیگر طبقات کو دوسرے درجے کا شہری بن کر رہنا ہے اور اُن کے ساتھ جو کچھ بھی ہو اسے برداشت کرنا ہے۔
 اس طرز فکر کو تقویت ملی ملک میں سیاسی زبان اور بیانیہ کی تبدیلی سے۔ کانگریس سے آپ کو اختلاف ہوسکتا ہے اس کے باوجود یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ سیاسی زبان اور بیانیہ میں تمام طبقات کا تذکرہ کیا جاتا تھا یعنی سماج کو تقسیم کرنے کی کوئی بات نہیں ہوتی تھی۔ کم از کم ظاہری طور پر تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔ مگر، بی جے پی نے اپنی بقاء اور اثرورسوخ کیلئے سماج میں تفرقہ پیدا کرنے کا حربہ کامیابی کے ساتھ آزمایا۔ اس کے علاوہ اس پارٹی کا کوئی اور وصف ایسا نہیں ہے جو دوسری پارٹیوں سے مختلف ہو، سوائے اس کے کہ یہ اپنے آپ کو کھلے عام عصبیت اور عناد کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ 
 عصبیت اور عناد کا یہ پہلو آج کل مین اسٹریم میڈیا کیلئے نہ صرف قابل قبول ہے بلکہ اس کی پہچان بنتا جارہا ہے۔ چنانچہ یہ کہنے میں کچھ تردد نہیں کیا جاتا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کیلئے سماج کاایک طبقہ ذمہ دار ہے جس نے پوری دُنیا کو انفیکشن میں مبتلا کردیا ہے۔ اسی طرح، اُن طبقات کی جانب سے روگردانی بھی اب جائز قرار پاتی ہے جو کورونا وائرس کے پھیلنے کے خطرہ کے باوجود اپنی مذہبی تقریبات کو جاری و ساری رکھتے ہیں۔ اب یہ بھی عیب نہیں رہ گیا ہے کہ مین اسٹریم میڈیا حکومت کی ناکامیوں سے چشم پوشی کرے۔ دشمن ملک ہمارے ملک میں دراندازی کرتا ہے اور اس زمین پر قابض ہوجاتا ہے جس کے تحفظ کیلئے ۱۹۶۲ء میں ہمارے۳؍ ہزار فوجی شہید ہوئے تھے اس کے باوجود میڈیا خاموش رہتا ہے اور ہمیں پانچ جنگی جہازوں کی آمد پر شلوک سناتا ہے۔ کیا ان جنگی جہازوں کا استعمال دشمن ملک کے خلاف کیا جائیگا؟ جی نہیں، میڈیا سوال نہیں پوچھتا، صرف یہ بتاتا ہے کہ دیکھئے یہ جنگی جہاز ہندوستان آچکے ہیں۔ 
 سنیچر کو خبر آئی کہ جولائی ۲۰۱۹ء کے مقابلے میں جولائی ۲۰۲۰ء میں منریگا کے تحت کام کی مانگ میں ۷۰؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ۳؍ کروڑ سے زائد خاندانوں نے اس کی مانگ کی جس کا مطلب یہ ہوا کہ کم و بیش ۱۵؍ کروڑ ہندوستانی اپنی روزی روٹی کیلئے اس پر منحصر  ہیں۔ دوسری خبر یہ دیکھنے کو ملی کہ حکومت بینکوں کا قرض ادا نہ کرنے والوں کو وقت کی جو سہولت دے رہی تھی اس میں توسیع ہوسکتی ہے۔ واضح رہے کہ کمپنیوں کو میعادی قرض پر ای ایم آئی بھرنے کیلئے اور عام کھاتے داروں کو آٹو موبائل یا مکان کی خریداری پر لیا گیا قرض ادا کرنے کیلئے وقت کی کچھ مہلت دی جارہی ہے کہ وہ قرض کی ماہانہ قسط سود کےساتھ چند ماہ ٹال سکتے ہیں۔ وزیر مالیات نے کہا کہ چند سیکٹرس کی جانب سے یہ درخواست موصول ہوئی ہے اور اس پر غور کرنا اس لئے ضروری ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ قسطیں ادا نہیں کرسکیں گے۔ اِدھر آٹوموبائل اور ٹو وہیلر کی فروخت سال بہ سال کم ہوتی جارہی ہے۔ ۲۰۱۴ء سے اب تک کمرشیل موٹر گاڑیوں کی فروخت میں کچھ بھی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ صنعتیں ٹھپ پڑی ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود میڈیا کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اس کا سارا زور ایک نوجوان کی خود کشی سے متعلق خبروں پر صرف ہورہا ہے۔ دفتر وزیر اعظم اس کیلئے ای ڈی کا غلط استعمال کررہا ہے، یہ بات بھی میڈیا کیلئے قابل توجہ نہیں ہے۔ اسے صرف یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری پر ایک فرقے کے لوگ کیوں حاوی ہیں۔ ایک دہائی قبل تک، اگر فلم انڈسٹری پر ایک فرقہ کے حاوی ہونے کو محسوس بھی کیا جاتا تو کچھ کہنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ یہ گریز اس لئے تھا کہ ہمارا آئین تمام طبقات اور فرقوں کے یکساں احترام اور ان کے ساتھ مساوی سلوک کی ترغیب دیتا ہے اور یہ سمجھاتا ہے کہ ہم ایک ہمہ تہذیبی اور سیکولر ملک ہیں۔ مگر اب آئین کی اس بنیادی خصوصیت کا احترام سیاست میں ناپید ہے اور اسی کے ساتھ میڈیا میں بھی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK