Inquilab Logo Happiest Places to Work

میرے رَب نے کسریٰ کو آج رات سات گھڑی گئے ہلاک کرڈالا ہے

Updated: December 23, 2022, 11:05 AM IST | Maulana Nadeem Al-Wajdi | Mumbai

سیرتِ نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں سلاطین عالم کے نام لکھے گئے آپؐ کے خطوط کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کسریٰ کے نام لکھے گئے خط اور اس کا ردّعمل نیز وہ واقعہ پڑھئے جب آپؐ نے کسریٰ کی ہلاکت کی خبر اسکے قاصدوں کو سنائی

A picture of Sana`a, the capital of Yemen. In the Arab region, Yemen remained under the tyranny of Sassanid rulers for fifty years
یمن کے دارالحکومت صنعاء کی ایک تصویر۔ خطۂ عرب میں یمن، پچاس برسوں تک ساسانی حکمرانوں کے پنجۂ استبداد میں جکڑا رہا

کِسْریٰ بن ہُرْمُزْ کے نام خط
اسی سلسلۂ خطوط میں ایک خط آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہِ فارس کِسْریٰ بن ہُرْمُزْ کو بھی ارسال فرمایا تھا۔ خط لے جانے والے صحابی کا اسم گرامی عبد اللہ بن حُذافہ بن قیس السہمیؓ ہے۔ ایران کا بادشاہ کسریٰ خسرو پرویز بہت بڑی سلطنت کا مطلق العنان حکمراں تھا۔وہ اڑتیس برس تک مسلسل حکومت کرتا رہا۔ اس عرصے میں اس نے ساسانی خاندان کی سطوت وشوکت کو بام عروج پر پہنچا دیا تھا، ایک وقت وہ بھی آیا کہ اس نے رومیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور انہیں بہت سے علاقے چھوڑنے پر مجبور کردیا، اگرچہ وہ ان علاقوں پر زیادہ دیر تک قابض نہ رہ سکا، بلکہ بازنطینی حکومت کے بادشاہ ہرقل سے شکست کھاکر ان کے علاقے واپس کرنے پر مجبور ہوگیا، اگریہ جنگ نہ ہوتی یا اس جنگ میں اسے شکست نہ ہوتی تو وہ اس زمانے کا واحد سپر پاور ہوتا اور ساری دنیا اس کی باج گزار ہوتی۔ اس شکست کے باوجود کسریٰ پر ویز کا ملک چین کی سرحدوں سے لے کر جزیرۃ العرب کے مشرقی اور جنوبی علاقوں تک پھیلا ہواتھا، خطۂ عرب میں یمن، پچاس برسوں تک ساسانی حکمرانوں کے پنجۂ استبداد میں جکڑا رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسری ٰکو جو خط لکھوایا اس کا متن حسب ذیل تھا: 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
 ’’محمدؐ رسول اللہ کی طرف سے کسریٰ؛ سربراہِ فارس کے نام، سلامتی ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ میں تمہیں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں، کیوں کہ میں تمام عالم کے لئے اللہ کا رسول ہوں، تاکہ میں زندہ لوگوں کو (اللہ سے) ڈراؤں اور کافروں پر اتمامِ حجت ہوجائے،اسلام لے آؤ، سلامت رہو گے، اگر تم نے انکار کیا تو مجوسیوں کا گناہ (بھی) تم پر ہوگا۔‘‘  (کتاب الوفاء: ۲/۷۳۲، تاریخ الطبری: ۲/۳۰)
حضرت عبد اللہ بن حذافہؓ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مکتوب مبارک کسریٰ کو پڑھ کر سنایا گیا وہ غصے سے آگ بگولا ہوگیا۔ اس نے خط کے پرزے پرزے کردئے، وہ غصے میں یہ بھی کہہ رہا تھا کہ اس شخص کی یہ مجال کہ وہ مجھے خط لکھے حالاں کہ وہ میرا غلام ہے، حضرت حذیفہؓ واپس مدینے آئے اور حضور اکرم ﷺ کے سامنے پورا واقعہ بیان کیا، آپؐ نے اس وقت یہ بد دعا دی:  أن  یمزقوا کل ممزق، خدا کرے وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔ (صحیح البخاری: ۱/۱۱۳، رقم الحدیث: ۶۳) 
کسریٰ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے یمن میں اپنے گورنر باذان کو لکھا کہ وہ فوراً دو مضبوط قسم کے آدمی یثرب بھیجے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو گرفتار کرکے میرے پاس لائیں۔ باذان نے حکم کی تعمیل کی، اور اپنے دو قوی الجثہ اور نہایت طاقتور سپاہی یثرب بھیج دیئے، اور انہیں تاکید کردی کہ وہ جلد از جلد صاحبِ مکتوب کو گرفتار کرکے لائیں تاکہ انہیں کسریٰ کے حوالے کیا جاسکے، ان میں سے ایک کا نام قہرمان اور دوسرے کا نام بابویہ بتلایا جاتا ہے۔ باذان نے ان دونوں کو ایک خط بھی دیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ اگر آپ خوشی سے کسریٰ کے پاس چلے جائیں تو میں ایک سفارشی خط لکھ دوں گا، جو آپ کے کام آئے گا، اور اگر آپ نے انکار کیا تو کسریٰ آپ کی قوم کو ہلاک کردے گا اور آپ کے ملک کو تباہ کرڈالے گا۔
باذان کے دونوں ایلچی خط لے کر مدینے پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ دربارِ نبوت میں پہنچ کر وہ دونوں قاصد تھرتھر کانپنے لگے، اسی حالت میں انہوں نے وہ خط آپؐ کی خدمتِ عالیہ میں پیش کیا، آپ نے خط سن کر انہیں دعوتِ اسلام دی اور فرمایا کہ تم لوگ کل آنا، میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ کل کہوں گا۔ یہ دونوں پہلوان اگلے دن دوبارہ حاضر خدمت ہوئے۔ آپؐ نے ان سے فرمایا کہ تم اپنے آقا کو جاکر بتلادو کہ میرے رب نے اس کے رب (کسری) کو آج رات سات گھڑی گئے ہلاک کرڈالا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر اس کے بیٹے کو مسلط کردیا تھا، واقعہ یہ ہوا کہ خسرو پرویز کے گھر کے اندر ہی اس کے خلاف بغاوت کا شعلہ بھڑکنے لگا، اس کے نتیجے میں خسرو کا بیٹا شیرویہ اپنے باپ کو قتل کرکے بادشاہ بن بیٹھا، یہ منگل کی رات دس جمادی الاولیٰ سات ہجری مطابق چھ سو اٹھائیس عیسوی کا واقعہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسریٰ کے قتل کی خبر وحی کے ذریعے ملی، صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باذان کے دونوں نمائندوں کو اس واقعے کے متعلق بتلایا، وہ دونوں اس کی تردید کرنے لگے، اور کہنے لگے کہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، کیا ہم اپنے مالک کو جاکر بتلادیں کہ آپ آنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور بادشاہ کے قتل اور نوشیرویہ کی تخت نشینی کی افواہ پھیلانے میں مصروف ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور جاکر اپنے مالک کو بتلادو، اور اُس سے یہ بھی کہہ دینا کہ میرا دین اور میری حکومت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک کسریٰ پہنچ چکا ہے، بلکہ اس سے بھی آگے وہاں جاکر رکے گی جس سے آگے اونٹ اور گھوڑے کے قدم جا ہی نہیں سکتے، تم لوگ اس سے یہ بھی کہہ دینا کہ اگر تم مسلمان ہوجاؤ تو تمہارا ملک تمہارے پاس رہے گا اور تم بہ دستور اپنے قوم کے حاکم بنے رہو گے۔ (البدایہ والنہایہ :۶/۴۸۳، ۴۹۰، فتح الباری: ۸/۱۲۷،۱۲۸)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام لے کر بے یقینی کی کیفیت کے ساتھ وہ دونوں یمن روانہ ہوئے، ابھی تک شاید باذان بھی کسریٰ کے قتل سے بے خبر تھا۔ قاصدوں نے بتلایا تو وہ یہ سن کر حیران رہ گیا، کچھ دنوں کے بعد یہ خبر اس تک بھی پہنچ گئی کہ کسریٰ پرویز اپنے پایۂ تخت مدائن میں اپنے بیٹے شیرویہ کے ہاتھوں مارا گیا ہے، یہ اطلاع ایک خط کے ذریعے وہاں پہنچی جو شیرویہ نے اپنے گورنر باذان کو لکھا تھا۔ اس خط میں یہ ہدایت بھی تھی کہ جس شخص کے بارے میں میرے باپ نے تمہیں لکھا تھا اسے تا حکم ثانی اپنے حال پر رہنے دینا، البتہ اس پر نگاہ رکھنا۔ باذان نے اس حکم کی تعمیل نہ کی بلکہ اسلام قبول کرلیا، اس کے ساتھ ہی یمن کے بہت سے امراء وحکام  اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے اسلام کے دامنِ عافیت میں پناہ لے لی۔ باذان نے اپنے اور اپنی رعایا کے قبولِ اسلام کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دی، آپؐ نے خوش ہوکر اسے ایک کمر بند ارسال فرمایا، کمر بند کو لغت حمیر میں ’’معجِزہ‘‘ کہتے ہیں، اس لئے باذان کو ذوالمعجزہ کہاجانے لگا، بعد میںاس کی اولاد نے بھی بنو ذی المعجزہ کے نام سے شہرت پائی۔
 (تاریخ الطبری: ۲/۳۱)
شیرویہ بھی اپنے باپ کی روش پر چلا، کسریٰ کو اندیشہ تھا کہ اسے کسی بھی وقت بیٹے کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اس لئے وہ پہلے ہی اس کے قتل کا انتظام کرگیا تھا، اس نے اپنے خزانے کے انتہائی محفوظ صندوق میں زہریلی گولیوں کی ایک شیشی رکھ دی تھی اور اس شیشی پر لکھ دیا تھا کہ یہ قوت باہ میں اضافہ کرنے والی گولیاں ہیں۔ شیرویہ نے طاقت بڑھانے کے شوق میں وہ زہریلی گولیاں کھالیں اور مر گیا۔ (صید الخواطر علامہ ابن الجوزی ص:۱۶۷)
مکتوبِ گرامی کا کیا ہوا
عام طور پر مؤرخین اور سیرت نگار یہ لکھتے ہیں کہ کسریٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نامۂ مبارک کو چاک کردیا تھا، اس کے بعد کیا ہوا، اس کے متعلق تاریخ کی کتابوں میں کچھ زیادہ نہیں ملتا، البتہ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ کسریٰ نے نامۂ مبارک کے ٹکرے حضرت عبداللہ  بن حذافہؓ کو دے دیئے تھے اور ان سے کہا تھا کہ یہ ٹکرے لے جاکر اپنے نبی کو ہدیہ کر دینا۔ کون جانتا تھا کہ کسریٰ کی عظیم الشان سلطنت تباہ ہوجانے والی ہے اور جس تحریر کو وہ پھاڑ کر پھینک رہا ہے وہ مرور زمانہ اور گردش روزگار کے باوجود چودہ سو سال کے بعد بھی دستیاب ہوسکتی ہے۔ (رسولؐ اللہ کا سفارتی نظام: ۴۱۵) ایسا لگتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن حذافہؓ خط کے یہ ٹکرے لے کر نہیں گئے بلکہ یہ ٹکرے وہیں رہ گئے، کسی نے انہیں جوڑ کر محفوظ کرلیا۔ مئی ۱۹۶۳ء کی دسویں یا اس کے آس پاس کی کسی تاریخ میں ساری دنیا کے تمام بڑے اخبارات میں بیروت سے آنے والی یہ خبر شائع ہوئی کہ وہاں کے سابق وزیر خارجہ ہنری فرعون کے موروثی ذخیرے میں اصل مکتوبِ نبویؐ بہ نام کسریٰ دریافت ہوا ہے۔ اس دریافت کا سہرا ڈاکٹر صلاح الدین المنجِّد کے سر جاتا ہے۔ ۲۲؍مئی ۱۹۶۳ء کو بیروت کے روز نامہ ’’الحیاۃ‘‘ میں اس مکتوب گرامی کے متعلق ان کا ایک تحقیقی مضمون چھپا اور نامۂ مبارک کا فوٹو بھی شائع ہوا۔ الوثائق السیاسیۃ کے مصنف ڈاکٹر محمد حمید اللہ لکھتے ہیں کہ ہنری فرعون کے باپ نے پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر یہ دستاویز دمشق کے کسی شخص سے ڈیرھ سو اشرفیاں دے کر خریدی تھیں، مگر اسے شاید اس دستاویز کے متعلق کچھ معلومات نہیں تھیں، یا وہ جانتا تھا مگر اس نے اپنے گھر والوں کو اس کے متعلق کچھ نہیں بتلایا تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد بیٹے کو یہ دستاویز ملی، نومبر ۱۹۶۲ء کے آخر میں اس نے یہ دستاویز ڈاکٹر صلاح الدین المنجد کے حوالے کی کہ وہ اسے پڑھنے کی کوشش کریں، اس طرح یہ خط منظر عام پر آیا۔
 (رسول اکرمؐ کی سیاسی زندگی ص:۲۳۳)
ڈاکٹر صلاح الدین بتلاتے ہیں کہ یہ ایک باریک جھلّی ہے، جس کا رنگ مرورِ زمانہ کی وجہ سے تبدیل ہوگیا ہے، جھلّی پرانی اور نرم ہے، اس کے کنارے کالے پڑ گئے ہیں، یہ ۳۸؍ سینٹی میٹر لمبی اور ساڑھے ۲۱؍سینٹی میٹر چوڑی ہے، جھلّی مستطیل ہے، مگر چوڑائی یکساں نہیں ہے، اوپر زیادہ چوڑی ہے اور نیچے کم، اس پر جو عبارت مرقوم ہے وہ ۱۵؍سطروں پر مشتمل ہے، مگر مگر کوئی سطر ڈھائی سینٹی میٹر ہے اور کوئی ساڑھے اکیس سینٹی میٹر ہے، عبارت کے نیچے گول مہر ہے، اس کا قطر ۳؍سینٹی میٹر ہے، جھلّی کے نچلے حصے پر پانی کی وجہ سے نشانات پڑ گئے ہیں، کچھ الفاظ بھی مٹے ہوئے ہیں،بعض جگہ حروف مدھم ہیں، مہر کی عبارت مٹ گئی ہے، جھلّی کو کسی نے پھاڑنے کی کوشش بھی کی ہے، فی الوقت یہ جھلّی تیسری سطر سے دائیں جانب وسط تک جڑی ہوئی ہے، پھر طولاً دسویں سطر تک پھٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ (رسولؐ اکرم کی سیاسی زندگی، ص:۲۴۴) (جاری)

Kasra Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK