Inquilab Logo

میرے، سوشل میڈیا پرنہ ہونے کے اسباب

Updated: February 23, 2020, 2:01 PM IST | Aakar Patel

سوشل میڈیا انسانی زندگی کا لازمی جزو بن گیا ہے۔ اگر یہ تاثر غلط ہو تب بھی یہ کہنا تو بہرحال غلط نہیں ہوگا کہ ملک کی ایک بڑی آبادی اس سے ’استفادہ‘ کررہی ہے۔ یہ الگ بات کہ مَیں اس آبادی کا حصہ نہیں ہوں۔

میرے،سوشل میڈیا پر نہ ہونے کے اسباب ۔ تصویر : آئی این این
میرے،سوشل میڈیا پر نہ ہونے کے اسباب ۔ تصویر : آئی این این

مَیں اُن لوگوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جو سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں مگر اُن کی نجی اور ذاتی زندگی میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ یہ بات مَیں اس لئےکہہ رہا ہوں کہ میری نظر میں فیس بُک اور ٹویٹر اتنے دل پسند اور پُرکشش ہیں کہ اُنہیں اعتدال کے ساتھ استعمال کرنا کارے دارد ہے۔ سوشل میڈیا کے یہ پلیٹ فارم اس لئے دل پسند اور پُرکشش ہیں کہ دونوں ہی بلا کے ذہین لوگوں کی ایجاد اور ٹیکنالوجی کے مؤثر اور خوب تر استعمال کے غماز ہیں۔ 
 سوشل میڈیا کے یہ پلیٹ فارم مختلف ملکوں کے لوگوں کو ایک دوسرے سے آن واحد میں جوڑ دیتے ہیں جس سے انٹرنیٹ کی طاقت اور اثر پزیری کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کے استعمال کیلئے جو آلات بروئے کار لائے جاتے ہیں وہ بھی کافی خوبصورت ہیں۔ میرے دوست کمار کیتکر نے درست فرمایا جب اُنہوں نے آئی پیڈ کے بارے میں کہا کہ یہ ’’کریک کوکین‘‘ ہے جس سے آدمی گھنٹوں لطف اندوز ہوسکتا ہے یہ جانے بغیر کہ وہ کیا کررہا ہے۔
 سوال یہ ہے کہ کیا ایک صارف، ڈوب جانے کے خطرے کے بغیر سوشل میڈیا میں ڈبکی لگا سکتا ہے؟ جو خوش نصیب ایسا کرسکتے ہوں وہ یقیناً نظم و ضبط کے پابند ہیں، میں ان کی ستائش اور قدر کرتا ہوں کیونکہ مَیں اُن جیسا نہیں ہوں اور یہی وجہ ہے کہ مَیں نہ تو فیس بُک استعمال کرتا ہوں نہ ہی ٹویٹر۔ ویسے سوشل میڈیا سے میری دوری کے اور بھی اسباب ہیں:
 ایک صحافی اور قلمکار کی حیثیت سے مَیں یہ محسوس کرتا ہوں کہ سوشل میڈیا بے لطف کرنے والی چیز ہے اس لئے غیر سود مند ہے۔ صحافیوں اور قلمکاروں کو اس بات سے بے نیاز ہونا چاہئے کہ اُن کی تحریروں کے بارے میں کون کیا کہہ رہا ہے، بالخصوص وہ رائے اور تاثرات جو فوری طور پر ملیں۔ مگر فیس بُک اور ٹویٹر پر نہ صرف یہ کہ صارفین کی رائے مسلسل ملتی ہے بلکہ ان میں سے اکثر بے ساختہ اور فوری نوعیت کی ہوتی ہیں۔ فیس بُک اور ٹویٹر پر کہنے اور لکھنے والے کی بے نیازی ختم ہوجاتی ہے اور وہ نیاز مند ہوجاتا ہے کہ معلوم تو کریں فلاں مضمون یا فلاں تحریر کے بارے میں کس نے کیا لکھا۔ ہر قلمکار کو جو سوشل میڈیا پر ہے، تبصروں (کمینٹس) کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ اس کالم کا مقصد یہ تھا کہ لکھنے والے اور پڑھنے والوں کے درمیان رابطہ اور مکالمہ قائم ہو۔ بلاشبہ بعض اوقات لکھنے اور پڑھنے والوں کے درمیان بڑا بامعنی اور غوروخوض پر مجبور کرنے والا تبادلۂ خیال ہوتا ہے لیکن اپنی تحریر کے سامنے قارئین اور صارفین کے تبصرے دیکھنا ایسا ہی ہے جیسے آپ ہائیڈ پارک کے سوپ باکس پر چڑھ کر گفتگو کریں۔ تبصرے ہر قسم کے ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعہ مذاق بھی اُڑایا جاتا ہے، مزے مزے کی باتیں بھی ہوتی ہیں اور دھکم پیل بھی۔ یہ قلمکار کے فائدے کی چیزیں ہوسکتی ہیں مگر کوئی قلمکار خود کو اس کے نرغے میں کیوں ڈالے؟ ہاں، شہرت ِ مزید حاصل کرنی ہو یا بدنامی کمانی ہو تو بات الگ ہے۔
 ہمارے کئی ہموطن سوشل میڈیا پر مضحکہ اُڑانے اور دھکم پیل کرنے کے علاوہ کیا کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہوں گے، کئی بار وہ ذاتیات پر اُتر آتے ہیں اور کئی بار گالم گلوج پر۔ اس کا آپ کی تحریر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بے پرکی ہانکی جاتی ہے۔ بحیثیت صحافی اور قلمکار ہی نہیں، ایک قاری کی حیثیت سے بھی مجھے فیس بُک اور ٹویٹر پر موجود قارئین سے بڑی اُلجھن ہوتی ہے۔ ممکن ہے میری اس بات کو لکھنے والوں کی تحقیر پر محمول کیا جائے لیکن میرا مقصد تحقیر نہیں ہے۔ مَیں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جہاں کچھ اچھی چیزیں میسر آتی ہیں وہیں ہزاروں ایسی تحریروں سے سابقہ پڑتا ہے جو قابل مطالعہ نہیں ہوتیں مگر آپ کو مجبور کرتی ہیں کہ ہمیں پڑھئے۔ ویب سائٹس کا حال قدرے مختلف ہے مگر سوشل میڈیا کے بارے میں عموماً یہی سنا ہے کہ اس پر اتنا مواد موجود ہوتا ہے (اور مسلسل آتا رہتا ہے) کہ آپ تھک جائیں اس کے باوجود مواد ختم نہ ہو۔ اسی لئے ایک حد مقرر کرنی ضروری ہے اور اس مضمون کے ذریعہ مَیں یہی کہہ رہا ہوں کہ میں نے اپنی حد مقرر کرلی ہے۔ 
 میرا معمول لکھنے اور پڑھنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جہاں تک پڑھنے کا تعلق ہے، مَیں یہ بات بہت ذمہ داری کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ مطالعہ میرے لئے ناگزیر، سنجیدہ اور کچھ سیکھنے کی سرگرمی ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ میرا طریقۂ مطالعہ عجیب ہے۔ میں سال کی ابتداء میں طے کرلیتا ہوں کہ مجھے دوران سال کیا کیا پڑھنا ہے۔ اس کے بعد میں متعلقہ کتابیں جمع کرنے لگتا ہوں۔ کتابیں حاصل کرتا رہتا ہوں اور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ کتابوں کو سنبھالنا میرے بس کا نہ رہے۔ کسی بھی عام دن میں یعنی جس دن کوئی اچانک مصروفیت نہ آجائے، مَیں کم از کم ۱۰۰؍ صفحات کا مطالعہ کرتا ہوں۔ ایسے میں سوچتا ہوں کہ سوشل میڈیا استعمال کرکے اپنے لئے ایک ایسا خلل کیوں مول لوں جو مجھ سے میرے چند گھنٹے چھین لے؟ اور ان چند گھنٹوں میں مَیں بہت سے شناسا اور بہت سے اجنبی لوگوں سے باتیں کرتا رہوں؟
  ویسے بھی مطالعہ سے وقت چرانا یا بچانا میرے لئے مشکل کام ہے۔ گانے، زبانیں سیکھنے اور کسرت کرنے کا بھی مجھے شوق ہے، سوشل میڈیا بالخصوص فیس بُک اور ٹویٹر استعمال کروں تو ان مشاغل کیلئے وقت کہاں سے لاؤں؟ دن رات کے چوبیس گھنٹوں کو کھینچ کر چالیس گھنٹوں میں تو تبدیل نہیں کیا جاسکتا!
 مَیں نے اخبارات کے مدیران کے بارے میں یہ طنزیہ جملہ سنا ہے کہ وہ دُنیا سے الگ تھلگ دُنیا میں رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ، لوگوں سے ملنے جلنے سے کتراتے ہیں اور حقیقی دُنیا میں کم کم ہی پائے جاتے ہیں جہاں پر سماجی سچائیاں بکھری ہوئی ہوتی ہیں۔ اس کے بدلے وہ خود کو کتابوں میں غرق رکھتے ہیں۔ یہ بات سب سے پہلے میں نے مائیکل ڈی مونٹین کے بارے میں سنی تھی جو کہ انگریزی کا باکمال انشاء پرداز تھا بلکہ کہا جاتا ہے کہ انگریزی میں فن انشاء کا بانی وہی تھا۔ بہرکیف، جو بات مَیں نے مدیروں کے بارے میں سن رکھی تھی وہ میرے دل کو بہت بھاتی ہے۔اسی لئے میرا معمول یہ ہے کہ مَیں بھلا اور کتاب بھلی۔ ویسے بھی تمام پسندیدہ کتابیں پڑھنے کیلئے ایک زندگی ناکافی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK