Inquilab Logo

نیا کواڈ: مشرق وسطیٰ میں نیا گٹھ جوڑ

Updated: October 27, 2021, 1:52 PM IST | Pravez Hafeez

عرب دنیا خصوصاً خلیجی ریاستوں میں نہ صرف ہندوستان کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے بلکہ مودی کا ذاتی قد بھی بلند ہوا ہے۔ خلیجی ریاستوں نے نہ صرف ہندوستان کی حکومت کے ساتھ تجارتی اور ثقافتی رشتے مستحکم کئے ہیں بلکہ انہوں نے مودی جی کو اپنے اعلیٰ ترین قومی اعزاز سے بھی نوازا ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

پچھلے ہفتے اسرائیل، متحدہ عرب امارات،  ہندوستان اور امریکہ کا ایک نیا مشترکہ بلاک معرض وجود میں آیا جسے New Quad (نئی چوکڑی) کا نام دیا گیا۔دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس نئے کواڈکا مقصد اقتصادی تعاون کی حصولیابی کے لئے ایک بین الاقوامی فورم قائم کر نا ہے۔ یہ فورم تجارت، ماحولیاتی تبدیلی، صحت، توانائی اور بحری سلامتی جیسے امور پر خصوصی توجہ دے گا۔
 دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے سے ہی ایک کواڈ قائم ہے امریکہ اور ہندوستان اس کواڈ میں بھی شامل ہیں اورآسٹریلیا اور جاپان اس کے دوسرے دو اراکین ہیں۔ معروف عالمی جریدہForeign Policyکے مطابق دونوں کواڈ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ نیا کواڈ پرانے کواڈ کے مانند چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خلاف کوئی مشترکہ محاذ نہیں ہے۔نئے کواڈ کامرکز مغربی ایشیا ہے جبکہ پرانے کواڈ کا محور مشرقی ایشیا ہے۔ اس لئے کئی تجزیہ نگاروں نئے اتحاد کو Middle Eastern Quad بھی کہا ہے۔ ’’ فارن پالیسی‘‘ کا دعویٰ ہے کہ چونکہ نئے کواڈمیں ایک مضبوط مشترکہ مقصد کی کمی ہے اسلئے اس کے مستقبل کی سمت غیر یقینی ہے۔ گرچہ یہ صحیح ہے کہ نیا کواڈ چین کیخلاف کوئی فوجی محاذ آرائی کے نیت سے نہیں بنایا گیا ہے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ اس کا ہدف بھی (ایران کے علاوہ) چین ہی ہے۔  امریکہ پچھلے پچاس برسوں سے مغربی ایشیا میں سرگرم عمل رہا ہے لیکن اب وہ چین کے ساتھ ایک نئی محاذ آرائی کے لئے اس خطے سے اپنا لاؤ لشکر اٹھا کر انڈو پیسیفک کی جانب کوچ کررہا ہے۔ اسرائیل اور یو اے ای جیسے علاقائی پارٹنر اور انڈیا جیسے دوست کو اس نئے بلاک میں شامل کرنے کے پیچھے واشنگٹن کا مقصد یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں خلا پیدا نہ ہو اور خطے کا علاقائی استحکام قائم رہے تاکہ ایران اور چین جیسے ممالک کو وہاں اپنی بالادستی قائم کرنے کا موقع نہ ملے۔امریکہ اس بات سے بھی ناخوش ہے کہ پچھلے پانچ برسوں میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات سے چین کے رشتے مضبوط ہوئے ہیں۔ واشنگٹن کو امید ہے کہ نئے کواڈ کے توسط سے وہ اپنے دونوں علاقائی حلیفوں کو چین سے دور کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔   ہندوستان  ایل اے سی پر خود چین کا ستایا ہوا ہے اس لئے وہ خوشی خوشی کواڈ کا رکن بنا ہے۔  
  ملک میں داخلی محاذ پر ناکام مودی حکومت نئے اتحاد کودیش واسیوں کے سامنے اپنی خارجہ پالیسی کی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرسکے گی۔ مودی حکومت کو توقع ہے کہ نئے اتحاد سے ہندوستان کو عالمی اسٹیج پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے، مشرق وسطیٰ میں روابط گہرا کرنے اور امریکہ کے ساتھ دوستی کو مزید مضبوط کرنے کا موقع حاصل ہوسکتا ہے۔ ذرا ستم ظریفی دیکھیں کہ پچھلے سات برسوں میں جب ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف جبر و استبداد میں اضافہ ہوا ہے، عرب دنیا خصوصاً خلیجی ریاستوں میں نہ صرف ہندوستان کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے بلکہ مودی کا ذاتی قد بھی بلند ہوا ہے۔ خلیجی ریاستوں نے نہ صرف ہندوستان کی حکومت کے ساتھ تجارتی اور ثقافتی رشتے مستحکم کئے ہیں بلکہ انہوں نے مودی جی کو اپنے اعلیٰ ترین قومی اعزاز سے بھی نوازا ہے۔یہ سب تب ہورہا تھا جب مودی جی اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کی دوستی کو نئی بلندیوں پر لے جارہے تھے۔ جن دو بڑے ورلڈ لیڈروں کے ساتھ تھے مودی جی کے سب سے قریبی تعلقات تھے وہ ڈونالڈ ٹرمپ اور بنجامن نیتن یاہو تھے۔ ٹرمپ نے وہائٹ ہاؤس میں اپنی اور تل ابیب میں نیتن یاہو کی اقتدار میں واپسی کو یقینی بنانے کی خاطر ڈیل آف دی سینچری اور معاہدہ ابراہیمی جیسی چالیں چلیں۔ پہلی چال تو فیل ہوگئی کیونکہ فلسطینیوں نے اسے مسترد کردیا۔ لیکن معاہدہ ابراہیمی بار آور ثابت ہوا۔ ٹرمپ نے عرب ممالک کو اسرائیل سے دیرینہ دشمنی بھلاکر مکمل سفارتی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات قائم کرنے پر آمادہ کرلیا۔ ٹرمپ وہائٹ ہاؤس میں دوبارہ قدم نہ رکھ سکے اور نیتن یاہو چار چار الیکشن لڑنے کے بعد بھی ہار گئے۔ لیکن دونوں نے جاتے جاتے ایک ایسا کارنامہ ضرور سر انجام دے دیا جس کی وجہ سے تاریخ میں انہیں جگہ مل گئی۔ ۲۰۰۲ء میں سعودی عرب نے مشرق وسطیٰ کے دیرینہ مسئلے کے حل کے لئے ایک تجویز پیش کی تھی جسے  Arab Peace Initiative کہا گیا۔ اس تجویز کے مطابق دنیا  کے ۵۷؍مسلم ممالک  اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے کو تیار تھے بشرطیکہ اسرا ئیل ۱۹۶۷ء کی جنگ کے وقت قبضہ کئے گئے تمام عرب علاقے خالی کردے اور ایک علاحدہ فلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطینی رفیوجیوں کی واپسی پر رضامند ہوجائے۔ اس پیش رفت کی ۲۰۰۷ء اور ۲۰۱۷ء  میں عرب لیگ نے توثیق بھی کردی تھی۔ لیکن اسرائیل اس تجویز کو ہمیشہ ٹھکراتا رہاکیونکہ اسے علم تھا کہ عرب ممالک میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈال کر کوئی مطالبہ منواسکیں اور بالکل یہی ہوا۔ پچھلے سال یو اے ای، بحرین، مراقش اور سوڈان نے معاہدہ پر دستخط کردیئے اور سعودی عرب سمیت کئی دوسرے مسلم ممالک بھی اسرائیل سے ہاتھ ملانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ بائیڈن نے ٹرمپ کے متعدد اہم فیصلوں سے روگردانی کی  لیکن اسرائیل کی حمایت میں کئے گئے اپنے پیش رو کے ہر فیصلے پر وہ پورے جوش و خروش سے عمل درآمد کررہے ہیں۔    
 پچھلے ڈیڑھ دو سال میں مغربی ایشیا میں ایسی جغرافیائی سیاسیاتی(geopolitical) تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کاکچھ عرصے قبل تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ دیرینہ دشمن نئے دوست بن گئے ہیں۔ اسرائیل اب اچھوت نہیں عربوں کا منظور نظر بن گیا ہے۔ ابو ظہبی اور منامہ میں اسرائیلی سفارت خانے کھل گئے ہیں۔ اسرائیلی وزیر خارجہ یائیر لیپڈ اور دو لاکھ یہودی یو اے ای کی سیا حت کرچکے ہی۔عرب ممالک نے پاکستان سے منہ پھیر کر ہندوستان کو گلے لگا لیا ہے۔ عالم اسلام نے جو کشمیرتنازع پر ہمیشہ نئی دہلی کی سرزنش کرتا تھا،۳۷۰؍کی تنسیخ کو ہندوستان کا اندرونی معاملہ قرار دے کر خاموشی اختیار کرلی ہے۔ دبئی نے تو حال میں کشمیر میں انفراسٹرکچر کی تعمیرات کے لئے لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدہ پر دستخط بھی کیا ہے۔    عرب ممالک کا اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنا فلسطینیوں کے ساتھ غداری کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ٹرمپ اور نیتن یاہو  کے دور اقتدار میں فلسطینیوں کو مسلسل درکنار کرنے کی جو پالیسی اپنائی گئی تھی اسے پہلے معاہدہ ابراہیمی اور اب نئے کواڈ سے مزید تقویت ملے گی۔درجنوں ممالک نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں کروڑوں انصاف پسند عوام ابھی بھی فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے اسرائیل اور امریکہ یہودی مملکت کی سفارتی تنہائی اور بین الاقوامی بدگمانی دور کرنے کیلئے طرح طرح کی کوشش کررہے ہیں۔ ابراہیمی معاہدہ ان  کوششوں کی تکمیل کا ہی اہم حصہ تھا اور نیا کواڈاسی کی مزید توسیع ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK