Inquilab Logo

نتیش حکومت تحریک اعتماد میں کامیاب!

Updated: February 15, 2024, 10:12 AM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

آج کی سیاست میں اخلاقی اصول وضابطے کی کوئی اہمیت وافادیت نہیں رہ گئی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نتیش کمار اپنے پرانے گھر میں واپسی کے بعد اپنے ترقیاتی نشانوں کو پورا کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔

Nitish Kumar
نتیش کمار

بہار کی نو تشکیل شدہ نتیش کمار کی قیادت والی قومی جمہوری اتحاد حکومت نے بہار قانون ساز اسمبلی میں تحریک اعتماد میں اکثریت ثابت کردیا ہے اور اس کے ساتھ ہی بہار کی سیاست میں گزشتہ ایک ہفتہ سے جس طرح کی غیر یقینی سیاسی صورتحال تھی اور طرح طرح کی قیاس آرائیوں کا بازار گرم تھا وہ ختم ہوگیا ہے۔اگرچہ اس عدم تحریک کے وقت اسمبلی میں جس طرح کا نظارہ دیکھنے کو ملا وہ ہماری جمہوریت کی صحت کیلئے قطعی ٹھیک نہیں ہے لیکن اب تو اس طرح کے واقعات روز ہی رونما ہوتے رہتے ہیں کہ ہمارے ممبرانِ اسمبلی جیت کر کسی اور سیاسی جماعت کے انتخابی نشان پر آتے ہیں اور اپنی کامیابی کے بعد اپنے سنہری مستقبل کی خاطر دوسری سیاسی جماعت کا ساتھ دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔بہار میں بھی کچھ اسی طرح کی روایتی روش دیکھنے کو ملی کہ جنتا دل متحدہ کے ایک ممبر اسمبلی اپنی پارٹی کے ذریعہ ویپ جاری ہونے کے باوجود ووٹنگ میں شامل نہیں ہوئے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے بھی ایک ممبر نے اپنی پارٹی کی حکم عدولی کی مگر سب سے بڑا نقصان راشٹریہ جنتا دل کو اٹھانا پڑا ہے ، اس کے تین ممبرانِ اسمبلی نے حکمراں جماعت کا ساتھ دیا۔ اگرچہ نتیش کمار اکثریت حاصل کرنے میں کسی طرح کی دشواری پیش آنے والی نہیں تھی کیونکہ قومی جمہوری اتحاد کے پاس پہلے سے ہی ۱۲۵؍  ممبرانِ اسمبلی کی اکثریت تھی اور اس کا اندازہ حزب اختلاف کو بھی تھا لیکن ظاہر ہے کہ حکمراں جماعت اور حزب اختلاف دونوں دورِ حاضر کی سیاست سے خوب واقف ہیں۔ شاید اس لئے دونوں ایک دوسرے پر نفسیاتی دبائو بنائے رکھنے کیلئے اپنے اپنے ممبرانِ اسمبلی کی نگہبانی میں ہی نہیں لگے ہوئے تھے بلکہ انہیں ایک طرح سے قید ہی کرلیا گیا تھا۔راشٹریہ جنتا دل کے سپریمو اپنے تمام ممبران اسمبلی کو دو روز قبل سے ہی تیجسوی یادو کی قیادت میں متحدکر رہے تھے لیکن اس کے باوجود تین ممبرانِ اسمبلی نے اسمبلی کے اندر اپنا باغیانہ تیور دکھایا اور حکمراں جماعت کا ساتھ دیا۔البتہ کانگریس کے ۱۹؍ ممبرانِ اسمبلی نے اپنی وفاداری دکھائی اور اس کے ایک بھی ممبر اسمبلی اِدھر سے اُدھر نہیں ہوئے جب کہ افواہوں کابازار گرم تھا کہ کانگریس کے اندر ٹوٹ لازمی ہے مگر کانگریس کی قیادت اپنے تمام ممبران اسمبلی کو متحد رکھنے میں کامیاب رہے اسی طرح بایاں محاذ کے اندر بھی اتحاد بر قرار رہا۔ بہر کیف اب جب نتیش کمار نویں مرتبہ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اکثریت حاصل کرلی ہے اور اپنے دیرینہ اتحادی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ حکومت بچانے میں کامیاب رہے ہیں تو اپوزیشن کی طرف سے ان پر مبینہ طورپر طرح طرح کا غیر اخلاقی رویہ اپنانے کا الزام لگایا جا رہاہے ۔جب کہ سچائی یہ ہے کہ نتیش کمار نے پہلی مرتبہ راشٹریہ جنتا دل کا ساتھ چھوڑا ہے اور نہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ہوئے ہیں۔اس لئے نتیش کمار کی قیادت پر کسی طرح کی الزام تراشی بے معنی ہے ۔ آج کی سیاست میں اخلاقی اصول وضابطے کی کوئی اہمیت وافادیت نہیں رہ گئی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نتیش کمار اپنے پرانے گھر میں واپسی کے بعد اپنے ترقیاتی نشانوں کو پورا کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بار راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ عظیم اتحاد کی ڈیڑھ سالہ حکومت میں نتیش کمار کے کام کرنے کی رفتار بہت تیز رہی ہے اور بالخصوص محکمہ تعلیم میں پرائمری سے لے کر ثانوی اسکولوں کے اساتذہ کی بحالی کرکے انہوں نے ایک ریکارڈ قائم کیا ہے ۔ اس لئے شاید راشٹریہ جنتا دل کی طرف سے عوام میں یہ پیغام دینے کی کوشش بھی ہو رہی ہے کہ عظیم اتحاد کی حکومت نے بہت کم وقت میں تین لاکھ سے زائد بیروزگاروں کو روزگار دینے کا کام کیا ہے اور اگر یہ اتحادی حکومت قائم رہتی تودس لاکھ بیروزگاروں کو روزگار دینے کا جو نشانہ تھا وہ پورا ہوتا۔میرے خیال میں چونکہ قیادت عظیم اتحاد میں بھی نتیش کمار کے ہاتھو ںمیں تھی اور اب بھی وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ کر انہیں ہی ریاست کے مفاد میں پالیسیاں طے کرنی ہیں اور اس کے نفاذ کو عملی صورت دینی ہے اس لئے انتظار کرنا ہوگا کہ نئی اتحادی حکومت میں ریاست میں ترقیاتی کاموں کی سمت ورفتار کیا ہوتی ہے۔  البتہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اگر اس بار نتیش کمارکیلئے اپنا دروازہ کھولا ہے تو اس کے پس پردہ کی سیاست بھی کچھ اور ہے ورنہ حال کے دنوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی صدر سے لے کر ریاستی صدر اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کے ذریعہ جس طرح نتیش کمار کی قیادت اور شخصیت کے خلاف زہر فشانی کی جاتی رہی ہے اس سے تو بہار کے عوام کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ایک طرف نتیش کمار بارہا عوامی جلسوں میںجس طرح اپنایہ موقف ظاہر کر رہے ہیں کہ کبھی عظیم اتحاد سے الگ نہیں ہوں گے اور قومی سطح پر تمام اپوزیشن کو متحد کرنے کا کام کریں گے تو دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی قیادت کے تیور سے بھی یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اب بھارتیہ جنتا پارٹی کسی قیمت پر نتیش کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہے مگر یہ مثال درست ثابت ہے کہ سیاست میں کب کون کس کادوست رہتا ہے اور کب دشمن بن جاتا ہے یہ کہنا مشکل ہے۔بالخصوص حالیہ دو دہائیوں میں اپنے ملک کی سیاسی فضا جس طرح مکدر ہوئی ہے اور جمہوریت کی جڑیں کاٹی جا رہی ہیں اور اس کے لئے کسی ایک خاص سیاسی جماعت کو کٹہرے میں کھڑا بھی نہیں کیا جاسکتا ۔بہار میںتقریباً تین دہائیوں سے جوڑ توڑ کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے کہ کسی بھی ایک سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہو رہی ہے ۔ بالخصوص نتیش کمار نے اپنی سیاسی حکمت عملی سے اتحادی حکومت کے کئی تجربے کئے ہیں اور اس میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔اب دیکھنا ہے کہ اس بار جب نیا اتحاد حکومت سازی میں کامیاب ہوا ہے تو بہار میں کس طرح کی سیاسی صف بندی پروان چڑھتی ہے ۔کیونکہ اس نئے اتحاد میں صرف بھارتیہ جنتا پارٹی ہی نہیں بلکہ جیتن رام مانجھی جن کے پاس چار ممبران اسمبلی ہیں اور مانجھی سے ہم سب واقف ہیں اس لئے غیر یقینی صورتحال سے تو اس حکومت کو بھی دوچار ہوناہی پڑے گا۔مگرنتیش کمار جس طرح اب تک اپنی ساکھ بچانے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں شاید آئندہ کے خدشات پر بھی ان کی نظر ضرور ہوگی۔اس لئے نتیش کمار قدرے مطمئن بھی نظر آرہے ہیں اور انہوں نے اسمبلی میں اپنی تقریر میں اس کا اعادہ بھی کیا ہے کہ بہار میں جتنی اسکیمیں چل رہی تھیں وہ متاثر نہیں ہوں گی اور بالخصوص بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ حکومت سازی کے بعد جس طرح ایک خاص طبقے میں اندیشہ ہے اس سے بھی وہ خوب واقف ہیں اور ریاست میں امن وسکون کی بحالی کیلئے ہم سب متحد ہو کر کام کریں گے ۔ نتیش کمار کا یہ اشارہ ان لوگوں کیلئے کافی ہے جو اس نئی حکومت کی تشکیل کے بعد کئی طرح کے شک وشبہات میں مبتلا ہیں۔n

bihar Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK