پارٹی بدلنے کے رجحان کو روکنا بہت ضروری ہے۔ اس لئے کہ سیاستدانوں کے پارٹی بدلنے کے رجحان میں اضافے سے بڑا تذبذب پیدا ہوگیا ہے۔ سوچنا پڑتا ہے کہ فلاں صاحب اب کس پارٹی میں ہیں اور اگر اُنہوں نے پارٹی نہیں گروہ بدلا ہے تو ذہن پر زور ڈالنا پڑتا ہے کہ وہ ٹوٹنے والی پارٹی کا حصہ ہیں یا ٹوٹ کر الگ ہونے والے حصے کا جزو۔
پارٹی بدلنے کے رجحان کو روکنا بہت ضروری ہے۔ اس لئے کہ سیاستدانوں کے پارٹی بدلنے کے رجحان میں اضافے سے بڑا تذبذب پیدا ہوگیا ہے۔ سوچنا پڑتا ہے کہ فلاں صاحب اب کس پارٹی میں ہیں اور اگر اُنہوں نے پارٹی نہیں گروہ بدلا ہے تو ذہن پر زور ڈالنا پڑتا ہے کہ وہ ٹوٹنے والی پارٹی کا حصہ ہیں یا ٹوٹ کر الگ ہونے والے حصے کا جزو۔ ابتداء میں الیکشن آنے پر لوگ پارٹی بدلتے تھے۔ اب الیکشن نہ ہو تب بھی پارٹی بدل کر اپنی ویلیو بڑھائی جاسکتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ٹوٹ پھوٹ نے پہلے سے موجود امکانات کو وسیع تر بنادیا ہے۔ عہدہ بھی ملتا ہے، ٹکٹ بھی یقینی ہوجاتا ہے اور بعض اوقات ’’کچھ اور‘‘ بھی مل جاتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس میں ’’عہدہ‘‘ زیادہ اہم ہے یا ’’ٹکٹ‘‘ یا پھر ’’کچھ اور‘‘ کا دم خم زیادہ ہے۔ مہاراشٹر میں ’’پنا ّ س کھوکھے، ایک دم اوکے‘‘ کی گونج اب کم سنائی دے رہی ہے مگر عوام کے ذہنوں میں اس کی بازگشت بدستور ہے۔سنتے تھے کہ سیاست سے دلچسپی رکھنے والے لوگ پہلے سماجی خدمتگار کے طور پر اُبھرتے تھے پھر یا تو کوئی پارٹی اُنہیں اپنی صفوں میں شامل کرتی تھی یا وہ خود کسی پارٹی کو اُس کے نظریات کی بنیاد پر قبول کرتے تھے۔ جذبۂ خدمت اُن کااولین تعارف نامہ ہوا کرتا تھا۔ یہ جذبہ کس میں کتنا ہے یہ کہنا مشکل ہے مگر نظریہ کے بارے میں پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے اِس بے چارے کی حیثیت تابع مہمل کی ہوگئی ہے۔ نوجوان قارئین کیلئے بتادیں کہ تابع ِمہمل ’’اُس بے معنی لفظ کو کہتے ہیں جو بامعنی لفظ کے ساتھ بطور ربط بولا جائے جیسے سچ مچ اور جھوٹ موٹ میں مچ اور مو‘ٹ‘‘(فیرز اللغات، ص ۳۵۸)۔ نظریہ جو کل تک بنیادی حیثیت کا حامل ہوا کرتا تھا آج بھی لگا بندھا رہتا ہے مگر مچ اور موٹ کی طرح۔ سیاستدانوں نے اسے عضو معطل سمجھ لیا ہے تو سیاسی جماعتوں کو بھی اس سے اُلجھن نہیں ہوتی۔ کانگریس کے نظریات سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والی بی جے پی کانگریسیوں کیلئے سرخ قالین بچھا دیتی ہے اور بی جے پی کے نظریات کو کوسنے والی کانگریس، بھاجپائیوں کیلئے در دل کشادہ رکھتی ہے۔ ہر دو طرح کی درجنوں مثالیں ملک کی حالیہ سیاسی تاریخ میں موجود ہیں ۔ ٹکٹ اور عہدہ ہی نظریہ بن جائیں یا تبدیلیٔ نظریہ کسی معلوم یا نامعلوم خوف سے بچنے کی تدبیر قرار پائے تو سیاست کا خدا ہی حافظ ہے۔ موجودہ حکمراں جماعت جس طرح وَن نیشن، وَن الیکشن، وَن راشن کارڈ، وَن لینگویج، وَن ٹیکس اور وَن سول کوڈپر یقین رکھتی ہے اُسی طرح وَن آئیڈیالوجی کو بھی نافذ کرنے کے درپے ہے۔ سوشلسٹ اور سیکولرسٹ کل تک نظریاتی اعتبار سے کافی سخت ہوا کرتے تھے، اب نتیش کمار ہوگئے ہیں ۔ گاندھی کے ساتھ رہنے میں فائدہ ہے تو گاندھی کی مدح سرائی ہوگی اور ناتھو رام سے سیاسی مفاد پورا ہو تو ناتھو رام سے ساز باز ہوگی۔ حالیہ برسوں میں ، کم تعداد ہی میں سہی، ناتھو وادی بھی گاندھی وادیوں کی صف میں آئے ہیں ، بھلے ہی اپنے آنے پر پچھتا کر دوبارہ ناتھو وادیوں میں نام لکھوا چکے ہوں ۔
اِس وقت ہمار ا ملک عجیب و غریب دور سے گزر رہا ہے جو عجیب تو اتنا نہیں لگتا جتنا نظریاتی اعتبار سے غریب اور غریب سے زیادہ مفلوک الحال اور قلاش لگتا ہے مگر، خدا رکھے، ایک طبقہ اب بھی موجود ہے جو نہ صرف یہ کہ نظریہ کے معاملے میں شفاف ہے بلکہ اپنے شفاف نظریہ کو روزانہ برتتا ہے۔ اسی طبقہ سے اُمید ہے۔ اسی طبقہ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی طبقہ صبح نو کا نقیب ہوگا۔