Inquilab Logo

چراغ جلتا رہے!

Updated: April 09, 2024, 2:36 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

رمضان المبارک، خواہ دُنیا کے کسی حصے میں گزارا جائے، عام مہینوں اور عام دنوں سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ بلاشبہ، اس میں بندگانِ خدا کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

رمضان المبارک، خواہ دُنیا کے کسی حصے میں گزارا جائے، عام مہینوں اور عام دنوں سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ بلاشبہ، اس میں بندگانِ خدا کی ترجیحات بدل جاتی ہیں مگر یہ ماہ اس وجہ سے مختلف نہیں ہوتا بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ اسے رب العالمین کی جانب سے خاص بنایا گیا ہے۔ یعنی اس میں بندگانِ خدا کا عمل دخل نہیں، اُس رب کائنات کا عمل دخل ہے جس نے اپنی بے شمار نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت کے طور پر یہ ماہ ہمیں عنایت کیا ہے ورنہ اِنسان کی طاقت و صلاحیت نہیں کہ بارہ مہینوں میں سے ایک ماہ کو اس قدر خاص بنادے کہ اس کی سحر الگ، شام الگ اور دن رات الگ محسوس ہونے لگیں۔ یہ سلسلہ پہلے دن سے شروع ہوجاتا ہے اور چاند رات تک جاری رہتا ہے۔ اس کے بعد اچانک منظرنامہ بدل جاتا ہے۔ 
  اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ تربیتی ماہ ہے اور کامیاب وہی ہے جو اس تربیتی ماہ میں خود کو نکھارے، سنوارے اور بقیہ گیارہ مہینوں کی تیاری کرلے کہ اُسے آئندہ رمضان تک کا عرصہ اُسی طرح گزارنا ہے جس طرح ماہِ رمضان گزرا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ رمضان تو مختلف اور بہتر انداز میں گزرتا ہے مگر بقیہ مہینے اِس طرح نہیں گزرتے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ دوران تربیت جن باتوں پر غوروخوض کیا جانا چاہئے اور جو عزم و ارادہ کیا جانا چاہئے، اکثر لوگ وہ نہیں کرتے حالانکہ رمضان المبارک کو بصد احترام و اہتمام گزارتے ہیں۔ 
 اسی لئے کہا جاتا ہے کہ غوروخوض ضروری ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں، رب العالمین نے اپنے کلام میں اس کی تلقین کی اور بار بار کی ہے۔ انسان غوروخوض کرتا رہے گا تو یقینی طور پر اپنے حالات، اپنے آس پاس کے حالات حتیٰ کہ عالمی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے واپس اپنی ذات کی طرف آئے گا کہ کیا قریب و دور کے حالات میں مثبت تبدیلیوں کیلئے اُس کی اپنی ذات کوئی کردار ادا کررہی ہے یا اُس کی ذات روزی روٹی اور گھر خاندان کے اپنے محور ہی کے گرد چکر لگا رہی ہے اور اُسے اگر مقامی، قومی و عالمی حالات کا علم ہے بھی تو وہ سمجھتا ہے کہ اس میں مثبت تبدیلی اُس کے اختیار میں نہیں ہے؟
  بلاشبہ ہماری اکثریت یہی سمجھتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ طویل سے طویل سفر کی ابتداء اُن چھوٹے چھوٹے قدموں سے ہوتی ہے جو صحیح سمت میں اُٹھتے ہیں۔مجروحؔ نے کہا تھا: ’’مَیں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر = لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا‘‘۔ دُنیا کی جتنی تحریکات تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہیں، سب کسی ایک فرد سے شروع ہوئیں اور پھر انقلابات ِ زمانہ کی نقیب بنیں۔ یہ سمجھنا کہ ہمارے اکیلے کے کرنے سے کچھ نہیں ہوسکتا محض خام خیالی ہے۔اندھیرا گہرا ہو اور دور تک پھیلا ہو اور انسان چراغ روشن کرنے کی اہلیت کے باوجود بے عمل ہوکر بیٹھا رہے کہ اتنا گہرا اندھیرا ایک چراغ کی روشنی سے دور نہیں ہوسکتا تو سمجھ لیجئے کہ روشنی کبھی ہو ہی نہیں سکتی۔ انسان کو سوچنا چاہئے کہ اُس کی دیکھا دیکھی دوسرا اور پھر تیسرا چراغ بھی روشن ہوگا اور ممکن ہے کہ پوری بستی بقعۂ نور بن جائے۔ کوشش یہ ہو کہ آدمی خود عمل کرے اور دوسروں کو عمل کی ترغیب دیتا رہے۔
 غوروفکر اور تدبر ا س لئے بھی ہونا چاہئے کہ ہمارے کئی کام بہتر ترتیب و تنظیم چاہتے ہیں۔ ترتیب و تنظیم ہی سے ہم میں نظم و نسق پیدا ہوگا اورہمارے کاموں کی افادیت بڑھے گی۔ خدا کرے ہم ان باتوں کو سمجھیں اور انہیں رو بہ عمل لائیں!  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK