Inquilab Logo

رویش کمار کی روش اور اُردو صحافت

Updated: December 09, 2022, 10:21 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اُردو میں بھی اگر کوئی رویش کمار پیدا ہوجائے اور ایسے لوگوں کو نمائندہ بنا کر پیش کرنے والوں کے ساتھ ان کو بھی ’’گودی میڈیا‘‘ جیسا کوئی نام دیدے جو چاپلوسی کرنے والوں کو جنم دیتے ہیں تو اس نقصان کو کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے جو اُردو صحافت کو پہنچ رہا ہے۔

ravish kumar:photo INN
رویش کمار تصویر :آئی این این

’بہرحال اور بہر قیمت ایمانداری برتنے‘ یا ’بہرحال اور بہر قیمت‘ سچ بولنے کا دعویٰ کرنے والے تو بہت ہیں مگر اپنے دعوے پر کھرے اترنے والے دن بہ دن کم ہوتے جارہے ہیں۔ مَیں اپنی بات کروں تو یہی کہوں گا کہ مَیں سچ کا طرفدار بن کر جب بھی سامنے آیا، اس قسم کا دعویٰ کرنے والے مخالف صف میں کھڑے نظر آئے۔ صحافت یا اخبار نویسی میں بھی یہی نظر آیا کہ جس کے پاس طاقت، رسوخ یا اقتدار ہے وہ اپنے حق میں نعرے بلند کروا رہا ہے۔ بیشتر لوگ تو یہ جانتے ہوئے بھی کہ انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا جھوٹ کے طرفدار بنے رہتے ہیں۔ ایسے میں جب یہ معلوم ہوا کہ صنعتکار اڈانی کے این ڈی ٹی وی خرید لینے کے بعد رویش کمار مستعفی ہوگئے ہیں اور انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا کی جیوری کے سربراہ اور اسرائیلی فلمساز نادو لاپڈ نے ’’کشمیر فائلز‘‘ کو ’’ولگر‘‘ یعنی فحش یا بھدی اور پروپیگنڈہ فلم کہا ہے تو محسوس ہوا کہ زور کی بجلی کڑکی ہے جس سے فضا میں پھیلی ہوئی کثافت صاف ہونے کے اسباب پیدا ہوگئے ہیں۔
 مَیں کسی بھی طبقے اور جماعت پر ظلم کیخلاف ہوں اور پنڈتوں کے بغیر کشمیر کا تصور نہیں کرسکتا، مجھے اس کا بھی اعتراف ہے کہ پنڈتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے مَیں ان مظالم کی بھرپور مذمت بھی کرتا ہوں مگر کشمیر فائلز میں ان مظالم کو جس انداز میں پیش کیا گیا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ کشمیر فائلز کا مقصد مظلوموں کی حمایت نہیں بلکہ معاشرے میں فرقہ وارانہ صف آرائی پیدا کرنا ہے۔ معاشرہ بھی ہندوستانی نہیں کہ اسرائیلی فلمساز نے یہاں تک کہا ہے کہ مجھے حیرت نہیں ہوگی اگر چند برسوں بعد ’’کشمیر فائلز‘‘ جیسی فلم اسرائیل میں بھی بنائی جائے۔ اسرائیلی سفیر کا کشمیر فائلز کے اداکار اور فلمساز کا اس بیان پر چونکنا باعث حیرت نہیں ہے ان کو تو اس بیان کی مخالفت یا اس سے برأت کا اظہار کرنا ہی تھا سو انہوں نے بچ بچا کر ایسا کیا بھی۔ مگر ہوا کیا، جیوری کے مزید تین ممبران نے ان کی حمایت کردی۔ سفارتکاری کے اپنے تقاضے اور مصلحتیں ہیں اس لئے اسرائیلی سفیر نے اپنے ابتدائی ردِ عمل میں صرف یہ کہا تھا کہ لاپڈ کا تبصرہ Insensitive یعنی احساس سے عاری ہے اور پھر ہند اسرائیل دوستی اور تعلقات کی مضبوطی کا اعلان کیا۔ ادب، فنونِ لطیفہ، فلم کسی خاص نقطۂ نظر کی حامل نہیں ہوسکتی۔ کشمیر میں جو ہورہا ہے یا ہوتا رہا ہے کیا اس میں صرف ایک مذہب کے لوگ مارے گئے ہیں اور کیا دہشت گردوں کے ہم مذہب افراد نے ہندوستانی سیکوریٹی فورسیز میں شامل ہو کر اپنی جانیں قربان نہیں کی ہیں؟
 بعد میں لاپڈ نے جو کہا یا ان سے جو کہلوانے کی کوشش کی گئی یہ بھی مخفی نہیں رہ گیا ہے۔ اسی طرح رویش کمار نے اپنے پروگرام میں جو روش اختیار کی تھی وہ کسی نہ کسی طرح دل کے راگ چھیڑ رہی تھی۔ یہ بھی محسوس کیا جارہا تھا کہ رویش کمار کی اینکرنگ یا خبروں کو پیش کرنے کے طریقے یا خبروں کی سچائی کی کسوٹی پر پرکھنے کیلئے سوالات کرنے کے انداز میں بھی کافی کشش ہے۔ اصل میں صحافت چاہے الیکٹرانک میڈیا کی ہو یا پرنٹ میڈیا کی ’’یہ اچھا ہے‘‘ اور ’’وہ برا ہے‘‘ یا ’’یہ اپنا ہے، وہ پرایا ہے‘‘ کہنے کی روادار ہو ہی نہیں سکتی۔ پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ اشخاص کا صرف یہ کام ہے کہ وہ خبروں کی سچائی کو صحیح تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کریں۔ بڑے ناموں یا اقتدار کے شکنجوں سے مرعوب نہ ہوں مگر عمومی حیثیت میں آج کا میڈیا مرعوبیت کی راہ پر ہی گامزن ہے۔ اس میڈیا میں وہ لوگ بھی جن کو دعویٰ ہے کہ وہ دبے کچلے عوام اور مظلوم افراد کی آواز ہیں ’’صاحبانِ حیثیت‘‘ یا ’’صاحبانِ رسوخ‘‘ کے ہی زیر اثر ہیں۔ اُردو صحافت بھی اخبار نویسی میں جس کا ماضی نہ صرف بہت تابناک رہا ہے بلکہ جو قائدانہ کردار ادا کرتی رہی ہے اور الیکٹرانک میڈیا کو بھی کم از کم صحیح گفتگو کے آداب سکھا رہی ہے، جی حضوری، اشتعال انگیزی اور جانبداری کے دھبوں سے محفوظ نہیں ہے۔ قومی، ملی اور لسانی تفاخر کا احساس دلانے والے ادارے تباہ ہورہے ہیں یا تباہ کئے جارہے ہیں۔ ایسا کرنے والے ملت اور اُردو کی خدمت کا انعام بھی لے رہے ہیں مگر ان کے خلاف بولنے والا یا لکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ کیا یہ روش سچائی کی مشعل لے کر چلنے والوں کے ذہنوں پر دستک نہیں دیتی؟
 یقیناً دستک دیتی ہے اور ایک دن یہی دستک ردِ عمل بن کر پھوٹے گی بھی اس وقت سچائی کا نام لے کر جھوٹ پھیلانے والوں کو کون بچائے گا؟ گزشتہ چند برسوں میں ایسے ایک دو نام سامنے آئے ہیں جو اُردو صحافت سے وابستگی کے سبب راجیہ سبھا میں بھیجے گئے ہیں مگر ان میں بھی کوئی ایسا نہیں ہے جس نے اُردو اخبار پڑھنے والے طبقے کی سماجی، معاشی، تعلیمی پسماندگی پر کوئی تحقیقی رپورٹ شائع کی ہو۔ تسلیم کہ اُردو کے کئی اخباروں میں سیکڑوں صحافیوں کو وقت پر تنخواہ نہیں ملتی، مگر یہ بھی سچ ہے کہ جنہیں تنخواہ کے ساتھ بہت کچھ ملتا ہے ان میں سے بھی کوئی رویش کمار یا پرنو رائے پیدا نہیں ہوا ہے۔ اُردو اور غیر اُردو صحافت کے درمیان نمایاں لکیر کھینچی جاسکتی ہے اس کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایسے لوگوں کی اُردو صحافت سے وابستگی وبال ثابت ہوئی ہے جنہیں صحافت کے آداب و اخلاق اور تقاضوں سے واقفیت ہے نہ زبان کے تخلیقی استعمال سے۔ اُردو صحافت سے وابستہ کئی قلمکار آج بھی اچھا لکھ رہے ہیں اور محنت بھی کررہے ہیں مگر ان کے مقابلے میں ایسوں کی تعداد اب بھی بہت ہے جن کا ذہن صاف ہے نہ ہی قلم اچھا ہے مگر وہی اُردو صحافت کی نمائندگی و ترجمانی کررہے ہیں یا کم از کم انہی کو بعض صاحبان حیثیت اُردو صحافت کا ترجمان یا نمائندہ بنا کر پیش کررہے ہیں۔ اسی لئے اردو کے غیور اور باصلاحیت صحافیوں کو بھی دو کوڑی کا صحافی جیسے جملے سننے پڑتے ہیں۔
 اُردو میں بھی اگر کوئی رویش کمار پیدا ہوجائے اور ایسے لوگوں کو نمائندہ بنا کر پیش کرنے والوں کے ساتھ ان کو بھی ’’گودی میڈیا‘‘ جیسا کوئی نام دیدے جو چاپلوسی کرنے والوں کو جنم دیتے ہیں تو اس نقصان کو کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے جو اُردو صحافت کو پہنچ رہا ہے۔ کوئی رویش کمار آسمان سے بارش کی طرح نہیں برستا، یہ مزاج و ماحول کے پروردہ ہوتے ہیں۔ اُردو اخبارات سے اگر وہ لوگ دور کردیئے جائیں جو صحافی نہیں ہیں مگر اُردو صحافت کا چہرہ تصور کئے جاتے ہیں تب بھی کافی مسائل حل ہوجائیں۔ ایک ضرورت سچی اور جھوٹی خبروں اور رپورٹس کی اشاعت میں تمیز کرنے کی بھی ہے مگر یہ ضرورت کون پوری کریگا۔ یہاں تو اپنی یا اپنوں کی تشہیر کو صحافت کا وطیرہ بنانا معمول بنتا جارہا ہے۔ حالات بہتر ہورہے ہیں نہ صحافت۔ اسی لئے تو وہ بات اُردو صحافت یا ہندوستانی صحافت میں شاید ہی کسی نے کہی ہو جو اسرائیلی فلمساز نے کہہ دی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK