Inquilab Logo

رویش جس کی صحافت روش عام نہیں

Updated: December 03, 2022, 10:41 AM IST | sahid latif | Mumbai

رویش کمار نے این ڈی ٹی وی سے استعفےٰ دے دیا ہے مگر اُن کی صحافت جاری ہے اور جاری رہے گی، فرق صرف اتنا ہے کہ اب وہ ایک مشہور چینل پر دکھائی نہیں دینگے، باقی سب کچھ ویسا کا ویسا ہی رہے گا جیسا کہ تھا۔ نہ تو اُن کا انداز بدلے گا نہ ہی اُن کے موضوعات اور سوال پوچھنے کی روش۔

Ravish  Kumar
رویش کمار

’یہ  دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ہمارے درمیان اب بھی ایسے لوگ باقی  ہیں جو ایماندارانہ صحافت کیلئے اپنی جان اور ملازمت (کریئر) کو داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کرتے۔‘‘ 
 ’’اگر مَیں سیاسی قائد ہوتا تو شہر میں باغ ِ محبت تعمیر کرواتا اور آئندہ الیکشن میں خوشی خوشی ہار جاتا کیونکہ اسے سماج قبول نہ کرتا۔‘‘
 ’’اگر میڈیا خود کو وہاٹس ایپ یونیورسٹی کے روپ میں پیش کرتا ہے تو اس کا اس کے ناظرین، قارئین اور سماج پر کیا اثر ہوگا؟‘‘ 
 ’’نیوز چینلوں نے ملک کی جمہوری اقدار کا گلا گھونٹنے کیلئے بڑی کوششیں کی ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ ملک کے شہریوں کی بڑی تعداد وہ چینل دیکھتی ہے جو حکومت سے سوال نہیں کرتے۔ ‘‘
 ’’ ہمیشہ،معیشت ہی کے نقطۂ نظر سے عدم مساوات کی پیمائش کی جاتی رہی ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم علم کے نقطۂ نظر سے عدم مساوات کو سمجھیں۔ آج جبکہ علم و ہنر پر چند شہروں کا قبضہ ہوگیا ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ علم و ہنر کا فقدان کیا گل کھلائے گا۔‘‘
 یہ اور ایسے سیکڑو ں جملے این ڈی ٹی وی کے مقبول شو ’’پرائم ٹائم‘‘   پر آپ سنتے رہے ہیں جس کے میزبان تھے رویش کمار۔ رویش کی شہرت پرائم ٹائم سے نہیں تھی، پرائم ٹائم کی شہرت رویش سے تھی۔ اس لئے کہ پرائم ٹائم اُن کی پہچان تو بنا مگر اِس پہچان کی اصل وجہ اُن کی پیشکش کی معروضیت، موضوع کا انتخاب، جملے، جملوں میں پایا جانے والا طنز، بے باکی، سوال پوچھنے کی جرأت، عوامی مسائل کے تئیں حساسیت اور ان سب کو ایک دھاگے میں پرونے والی رویش کمار کی شخصیت تھی۔ شومیٔ قسمت سے وہ اب مذکورہ چینل کا حصہ نہیں ہیں مگر مورخ جب بھی موجودہ دور کی صحافت کی تاریخ لکھے گا، رویش کے نام اور خدمات کا احاطہ کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکے گا۔
  رویش کو جو دور ملا وہ صحافت کی مشکلات کا دور تھا۔ گزشتہ آٹھ سال میں اِن مشکلات میں ناقابل بیان اضافہ ہوا۔ حق پسند اور ایماندار صحافیوں کیلئے یہ سخت آزمائش کا دور تھا مگر رویش نے اِس کمزوری کو اپنی طاقت بنالیا اور ایسے ماحول میں جب ٹی وی چینلوں کے اینکروں نے قلم پھینک دیا، اپنا ذہن رِہن رکھ دیا، صحافت کی ابجد تک بھول گئے اور سوال پوچھنے کی روایت کو ترک کردیا، اُسی ماحول میں رویش نے سوال پوچھنے اور پوچھتے رہنے کی روایت قائم کی۔ اُنہیں ٹرول کیا گیا، بُرا بھلا کہا گیا، دھمکیاں دی گئیں اور ...... وہ خود بتا چکے ہیں کہ اور کیا کیا ہوا مگر اُنہوں نے سوال پوچھنے کے اپنے طرز عمل میں معمولی سی بھی تبدیلی نہیں کی۔ سوال پوچھنا بھی اُن کی عادت نہیں طاقت بن گیا، اسلئے جب سوال پوچھنے پر دھمکیاںملنے لگیں تو اُن کے سوال پوچھنے کی رفتار بڑھ گئی۔ اِس ’’صحافت شکن‘‘ ماحول میں رویش کی موجودگی اور فعالیت فطرت کے اِس اُصول کو ثابت کرتی رہی کہ اندھیرا کبھی بھی مکمل نہیں ہوتا، روشنی کہیں نہ کہیں سے پھوٹتی رہتی ہے۔ رویش کی صحافت، جسے ایک طویل عرصے تے جاری رہنا ہے، تاریکی میں روشنی کا سکون بخش ترشح ہے۔ پرائم ٹائم میں ایسا لگتا تھا کہ جو کچھ اُن کی زبان سے ادا ہورہا ہے وہی ناظرین اور سامعین کے دلوں میں ہے۔ 
 پرائم ٹائم میں اُن کی ہر پیشکش لاکھوں کروڑوں ناظرین اور سامعین کی ترجمانی کا حق ادا کرنے والی پیشکش ہوتی تھی۔ این ڈی ٹی وی پر اپنے شو کے دوران رویش بین السطور یہی بتاتے رہے کہ صحافت کیسے ہونی چاہئے، صحافت کے بنیادی اُصول کیا ہیں، صحافت کا مرتبہ بلند کیوں ہے اور ایک صحافی کو کیسا ہونا چاہئے۔ جھوٹ کی فراوانی کے اِس دور میں سچ کی اِس آواز کو شہرت اور مقبولیت اس لئے حاصل ہوئی کہ جھوٹ کتنا بھی فروغ پائے، سچ کی اہمیت کو کم یا ختم نہیں کرسکتا نہ ہی سچ پر غالب آسکتا ہے۔ رویش اپنے اس ایقان پر قائم رہے اور جھوٹ کی فصلیں اُگانے، چیخنے چلانے، دھمکیاں دینے اور بے سر پیر کی ہانکنے والے اینکروں کے درمیان سے ایسا راستہ اپنایا کہ صاف پہچانا جاتا ہے۔ رویش کی انفرادیت کا یہ عالم ہے کہ اگر وہ سامنے نہ ہوں یا اُن کا کوئی جملہ نظر سے گزرے یا سماعت سے ٹکرائے، تو ناظرین اور قارئین پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ رویش کا جملہ ہے۔ اُن کی وضع کردہ اصطلاحوں اور فقروں  (بالخصوص گودی میڈیا، وہاٹس ایپ یونیورسٹی، ریٹائرڈ انکلوں، جسے وہ طنزاً ک کے نیچے زیر کے ساتھ بولتے تھے، وغیرہ) کا زبان زد خاص و عام ہونا ثابت کرتا ہے کہ سامعین اور ناظرین کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کی اُن کی صلاحیت غیر معمولی ہے۔ان اصطلاحوں اور فقروں کے بولنے والوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو رویش کی صحافت کے سخت مخالف ہیں۔ یہ رویش کی بڑی کامیابی ہے۔
 مخالف حالات کے باوجود کسی صحافی کا خود کو اِس طرح منوانا رویش کمار ہی کا حصہ ہے۔ اُنہوں نے ہر ناانصافی کے خلاف آواز اُٹھائی اور پورے شدومد کے ساتھ اُٹھائی، دلائل ہی نہیں دیئے حقائق بھی پیش کئے، اُن کی ہر رپورٹ اتنی تحقیقی ہوتی تھی کہ اِس پر گرفت کرنا آسان نہیں تھا۔ اُن کی رپورٹوں سے اہل اقتدار اور اُن کے ہمنواتقریباً روزانہ چراغ پا ہوتے رہے ہوں گے مگر کسی کو اتنی ہمت نہ ہوئی کہ کسی رپورٹ کے کسی ایک جز کو بھی بے بنیاد قرار دے سکے۔ طویل عرصے تک وہ ملک کے اُن لوگوں کی آواز بنے رہے جن کی یا تو آواز نہیں تھی یا کوئی اُن کی آواز سننا نہیں چاہتا تھا۔
 رویش ’’بے آوازوں‘‘ کی آواز اس لئے بن سکے کہ آئین و  قانون کی بالادستی، جمہوری قدروں کی فوقیت اور احترام ِانسانیت پر یقین رکھتے ہیں۔ اُن کے بے شمار شوز میں اُن کا درد جھلکتا ہوا دکھائی دیتا رہا۔ اپنے انٹرویوز اور تقریروں میں وہ کہتے ضرور ہیں کہ اتنی بڑی طاقتوں سے لوہا لینے کے عمل میں اُنہیں ڈر لگتا ہے۔ لگتا ہوگا مگر وہ ڈرے نہیں کیونکہ جانتے تھے کہ اُن کے پیچھے ملک اور بیرون ملک کے کروڑوں عوام ہیں جو اُن کے ایک ایک لفظ کی سچائی کے ساتھ ہیں۔ بہت کم صحافیوں کو یہ مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ رو یش نے نئی نسل کو حق پسندی، معروضیت اور بے خوفی ہی نہیں سکھائی یہ بھی بتایا کہ  مطالعہ کے فوائد کیا ہیں۔ وہ اپنے شوز میں کتابوں کا حوالہ دیتے رہے، کسی نہ کسی ادیب یا شاعر کا جملہ یا مصرعہ نقل کرتے رہے، کہانیاں سناتے رہے اور زمین سے جڑے رہنے کی تلقین کرتے رہے۔
 رویش نے این ڈی ٹی وی چھوڑا ہے، صحافت کو خیرباد نہیں کہا ہے۔ کہہ بھی نہیں سکتے کیونکہ جو لوگ صحافت کو دل و جان سے اپناتے ہیں اور اُس سے روحانی رشتہ قائم کرلیتے ہیں، اُن کے سینے میں ہمہ وقت ایک آگ سی دہکتی رہتی ہے جو صحافت کو اُن کی زندگی کا محور و مرکز بنادیتی ہے۔ رویش کا پرائم ٹائم اب نہیں ہوگا مگر وہ کسی نہ کسی انداز  میں اپنے  مداحوں تک پہنچتے رہیں گے، یہ آواز خاموش نہیں ہوگی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK