Inquilab Logo Happiest Places to Work

سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کا افسوسناک واقعہ

Updated: July 11, 2023, 10:20 AM IST | Hasan Kamal | Mumbai

اس بدبختانہ واقعہ پر ساری دنیائے اسلام میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔ ہر مسلم ملک میں سویڈن کے سفارت خانوں کے سامنے لوگ اپنے طور پر احتجاج کررہے ہیں ۔

 Sweden .Photo:INN
سویڈن۔ تصویر :آئی این این

عید الاضحی  کے دن یورپی ملک سویڈن میں ایک ایسا واقعہ ہوا جو تمام عالم انسانی کے لئے شرم کا مقام تھا۔ اس شہر کی ایک مسجد کے باہر ایک مشتعل نوجوان آیا اور اس نے سیکڑوں مسلمان ناظرین کے سامنے قرآن حکیم کا ایک نسخہ نذر آتش کر دیا۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اس نے یہ نازیبا کام سویڈن کے قوانین کے مطابق اظہار رائے کے نام پر کیا تھا۔ سویڈن قوانین کے مطابق کوئی بھی سویڈش شہری اپنی اظہار رائے کے نام پر کہیں بھی کچھ بھی کر سکتا تھا۔ لیکن اسی قانون کے مطابق اسے اس نام نہاد اظہا ررائے کیلئے شہر کی پولیس سے اجازت بھی لینی پڑتی ہے جو اس بد بخت نے لے بھی لی تھی۔ یہ بھی بتایاجاتا ہے کہ یہ بدبخت غالباً عیسائی تھا اور محکمۂ پولیس نے اسے اجازت اس لئے دی تھی کہ ایک تو یہ قانون تھا ،دوسرے اس کا خیال تھا کہ یہ شخص وہاں آکر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی تقریر کرے گا۔ پولیس کو بھی یہ امید نہیں تھی کہ وہ اس حد تک چلاجائے گا۔پولیس نے وہاں پر موجود مسلمانوں کو اس شخص کے پاس نہیں جانے دیا۔ خیال رہے کہ اسی سال کچھ ماہ پہلے ایسا ہی ایک اورواقعہ ہوا تھا۔ اس وقت وہاں موجود مسلمانوں نے بہت مشتعل ہوکر ا س کا جواب دیا تھا۔ بہر حال اس بار مسلمان مشتعل نہیں ہوئے اور ایسا کر کے انہوں نے اچھا ہی کیا۔ اس کے بعد سویڈن کے شہروں میں ان کے لئے ہمدردی بڑھ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ ان واقعات کا بھی ایک پس منظر ہے۔ سویڈن میں ایک سیاسی تنظیم ہے جس کا نام رئسکو ہے۔ یہ اسی طرح کی تنظیم ہے جیسے بیسویں صدی کے وسط میں امریکہ میں کو کلکس کلان نام کی ایک تنظیم تھی جو سیاہ فاموں کے خلاف تھی ۔ سویڈن کی یہ تنظیم بھی یہ چاہتی ہے کہ ملک کی سرکاری ملازمتوں اور تجارتوں میں مسلمان حصہ نہ لیں۔ مسلمان اس وقت سویڈن میں نو سے دس فیصد تک موجود ہیں اور وہاں کام کاج کرتے ہیں ۔یہ تنظیم ان ہی کے خلاف ہے اور اسی کی شہ پر اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں۔ 
 بہرحال اس حرکت نے ساری دنیا میں خصوصاً مسلمانوں میں سخت برہمی پیدا کر دی ہے۔ساری دنیا میں اس واقعہ کی سخت مذمت کی گئی ہے۔  برہمی کا پہلا اوربہت کڑے لفظوں کا اظہار روسی صدر پوتن کی طرف سے سامنے آیا۔ انہوں نے سویڈن حکومت پر اس مذموم واقعہ کی ذمہ داری ڈالتے ہوئے کہا کہ اظہار رائے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ ایک دوسرے فرقے کا دل دکھایاجائے۔ ہمیں وہ شق تو نہیں معلوم،لیکن انہوں نے کہا کہ روس میں کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے دور اقتدار میں ماسکو اور دوسرے شہروں  میں ۳۵۰؍سے زیادہ مسجدیں تعمیر ہو چکی ہیں۔ سویڈن نیٹو کا ممبر بننا چاہتا ہے اورروس نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی بھی پڑوسی نیٹو جیسی تنظیم کا رکن بنے کیونکہ نیٹو کے منشور کے مطابق ایک نیٹو ملک پر حملہ تمام نیٹو ممالک پر حملہ سمجھاجاتا ہے۔ یوکرین کی جاری جنگ بھی اسی منطق کا نتیجہ ہے۔ وہ بھی یورپی یونین کا ممبر بننا چاہتا تھااور روس کویہ منظور نہیں تھا، کیونکہ یورپی یونین کا منشور بھی نیٹو جیسا ہی ہے۔ لیکن سویڈن کو اس لئے مشکل پیش آرہی ہے کیونکہ نیٹوکا یہ منشور بھی ہے کہ کسی ملک کو نیٹو کا ممبربنانے کے لئے نیٹو میں شامل تمام ممالک کی منظوری ضروری ہے اور سویڈن کی ممبری کی مخالفت ترکی کررہا ہے جو خود نیٹوکا ممبرہے۔ اس واقعہ کے بعد ترکی نے بہت صاف کہہ دیا ہے کہ کسی بھی حالت میں سویڈن کی حمایت نہیں کرے گا۔
 اس بدبختانہ  واقعہ پر ساری دنیائے اسلام میں احتجاج کیا جا رہا  ہے۔ سب سے بڑا حتجاج مراقش نے کیا۔ مراقش نے سویڈن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ہر مسلم ملک میں سویڈن کے سفارت خانوں کے سامنے لوگ اپنے طور پر احتجاج کررہے ہیں ۔ عام طور پر غیر فعال سمجھی جانے والی او آئی سی بھی حرکت میں آچکی ہے ۔ اس کی مجلس عاملہ نے فوری طور پراجلاس طلب کیا۔ وہاں یہ بتایا گیا کہ کسی نے سویڈن میں اظہار رائے کو جتانے کے لئے پولیس سے یہ اجازت مانگی تھی کہ وہ تورات کی ایک کاپی بھی جلانا چاہتا تھا، لیکن پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی۔ پولیس کی دلیل یہ تھی کہ اس طرح ملک میں نقص امن کا خطرہ ہوجائے گا۔او آئی سی نے کہا کہ پھر یہی دلیل اس معاملہ میں کیوں نہیں اپنائی گئی۔ ویسے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اسرائیل کے دو بڑے یہودی ربیوں نے قرآن کی بے حرمتی کی مذمت کی ہے۔ اسے مذمت کے قابل قرار دینے کے لئے عام طور پر او آئی سی ایسے سخت الفاظ کم ہی استعمال کرتی تھی،لیکن پچھلے دو تین سال میں اس کا رویہ بدلا ہے۔ ابھی تک اس انجمن میں اپنے ہی تیل کی دولت کے سہارے وہاں جو بھی ہوتا تھا سعودی عرب کے اشارے ہی پر ہوتا تھا لیکن اب چونکہ اسلامی ممالک یہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ترکی ،ایران اور پاکستان کو بھی مضبوط طاقت سمجھا جا رہا ہے اور گلوبل معاشرہ بھی ان ممالک کی طرف متوجہ ہے اس لئے سبھی کو اپنا رویہ پہلے سے زیادہ سخت کرنا پڑا ہے ۔
 حیرت اس بات کی تھی کہ اس سلسلہ میں عمران خان کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ یہی وہ لیڈر تھے جن کی کوششوں سے اقوام متحدہ نے ہر سال کے  پندرہ اپریل کو اسلامو فوبیا مخالف دن قرار دیا تھا لیکن عمران خان کا ایک المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی شہباز شریف حکومت نے ایک قانون بنا کر تمام ٹی وی چینلس پر یہ پابندی لگادی ہے کہ وہ عمران خان اور ان کی پارٹی کا نام تک نہ لیں۔ اگر کوئی ان کے خلاف بیان ہو تو بھی ان کا نام نہ لیا جائے اور اگر وہ کہیں احتجاج کریں تو  اس جگہ کرفیو لگادیا جائے ۔ اس لئے اگر وہ کوئی بیان دے بھی دیں تو بھی ان کا نام نہیں لیا جائے گا۔ بہر حال عمران خان نے اپنے ویڈیو لاگ پر قوم کو یہ پیغام دیا کہ جمعہ کی نمازکے بعدساری قوم مسجد کے باہر آکر پر امن طریقہ سے اس واقعہ کی مذمت کرے ۔پاکستان کے دیہاتوں میں اس احتجاج کا مظاہرہ کیا گیا۔
hasankamaal100@gmail.com

sweden Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK