Inquilab Logo

فٹ بال ورلڈ کپ: ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے

Updated: December 26, 2022, 1:42 PM IST | Ramzi Baru | Mumbai

کھیلوں کی بڑی تقریبات کو کارپوریٹ گھرانے اپنی تشہیر کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ایسا ہی مختلف ملکوں کے سربراہان بھی کرتے ہیں۔ مگر، یہی موقع ہوتا ہے جب کھلاڑی عوامی احساسات و جذبات کی ترجمانی کریں۔ فیفا ورلڈ کپ میں ایسا ہی ہوا ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

میرا ایک دوست ہے جس نے اپنی عمر کی کئی دہائیاں سماجی ناانصافی کے خلاف جدوجہد میں گزاری ہیں۔ نسل پرستی اور غریب نیز مفلوک الحال طبقات کے حقوق کی پامالی کے خلاف صف آراء ہونا اس کا خاص ہدف رہا۔ اُس کی یہ بات سن کر مَیں حیرت زدہ رہا گیا کہ ’’فٹ بال عوام کیلئے افیون ہے۔‘‘ یہ بات ایک مشہور قول سے استفادہ کرتے ہوئے کہی گئی مگر مجھے یہ بات مختلف لگی کیونکہ ایک عرب ملک میں فٹ بال کا اتنا بڑا ٹورنامنٹ ہوا کہ عالم عرب میں اس کے چرچے کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ مگر مَیں اپنے دوست کی بات پر غور کرنے پر مجبور ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ حکومتیں اسپورٹس کی بڑی اور غیر معمولی تقریبات کو عوامی توجہ بھٹکانے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ اس کا کہنا درست تھا۔ نہ صرف حکومتیں عوامی توجہ بھٹکانے کے مقصد سے اسپورٹس کی بڑی تقریبات میں سرمایہ لگاتی ہیں بلکہ اکثر اوقات ان تقریبا ت کو سیاسی اُمور کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ذمہ دار تقریباً تمام حکومتیں ہیں مگر امریکہ کو اس فن میں مہارت حاصل ہے۔ دیکھئے کیسے:
 ۲۰۱۰ء کی ایک دستاویز میں، جس کا عنوان تھا: ’’صرف کھیل نہیں: اقتدار، سیاست اور امریکی کھیل‘‘ ، صحافی اور فلم میکر ڈیو زیرین نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا تھا کہ اسکول کی سطح کے کھیلوں سے بڑے ٹورنامنٹوں تک، تمام کھیل دراصل سیاسی حربے ہیں جنہیں حکومت سیاسی مفادات کیلئے بروئے کار لاتی ہے۔ یہ باقاعدہ پروپیگنڈہ نہ ہو تب بھی اِن پر مفادات کا غلبہ ضرور ہوتا ہے۔ زیرین کی اس دستاویز پر فلم بھی بنی جبکہ یہ دستاویز کتابی شکل میں بھی شائع ہوئی۔ کتاب کا نام تھا: ’’امریکہ میں کھیل کود کی عوامی تاریخ۔‘‘ 
 برسراقتدار طبقات جانتے ہیں کہ اسپورٹس کو سیاسی مفادات کیلئے بآسانی بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ فیفا ورلڈ کپ ۲۰۲۲ء میں جو کہ دوحہ (قطر) میں منعقد کیا گیا، مختلف مقابلوں کے ناظرین کی تعداد کے بارے میں ۵؍ ارب کا اندازہ پیش کیا گیا تھا۔ یہ اندازہ این بی سی کا تھا۔ گزشتہ موسم گرما میں ٹوکیو اولمپکس دیکھنے والوں کی تعداد بھی خاصی بتائی گئی تھی۔ کم و بیش ۳؍ ارب لوگ۔ یہ اندازہ آئی او سی کا تھا۔ مَیں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ اندازہ کتنا صحیح یا غلط تھا، مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ جب کھیل کود کی کسی تقریب سے دُنیا کی کم و بیش آدھی آبادی لوَ لگاتی ہے تو اس کی جانب بڑے کارپوریٹ گھرانے متوجہ ہوتے ہیں بالخصوص وہ جو صارف اشیاء تیار کرتے ہیں اور اُن کے علاوہ وہ لوگ جو سیاستداں کہلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ملکوں کے سربراہان فٹ بال میچ دیکھنے کیلئے بذات خود تشریف لائے تاکہ اپنے ملک کی ٹیم کا حوصلہ بڑھائیں۔ فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے سیمی فائنل میں چند لمحوں کیلئے تماشائیوں کا ہاتھ لہرا کر استقبال کیا تھا۔ اُن کی شرکت کا سبب یہ نہیں تھا کہ اُنہیں فٹ بال سے دلچسپی ہے۔ اُن کی شرکت اس لئے تھی کہ وہ خود کو فاتح اور متحدہ ملک کے سربراہ کی حیثیت سے پیش کرسکیں۔
 بلاشبہ، فٹ بال میں اتنی طاقت ہے کہ عوام کو مذہب، نسل، طبقہ، جماعت وغیرہ کے امتیازات سے بالاتر کردے لیکن جب اس کا سیاسی استعمال ہوتا ہے تو ایسا کرنے والوں کو اُس کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے، اس پر سوال ہونا چاہئے، اس کے خلاف مزاحمت ہونی چاہئے اور جن لوگوں کو جہاں جیسا موقع ملتا ہے اُنہیں اپنی بات کہنی چاہئے۔ اسی لئے موروکو نے ورلڈ کپ میں جو کچھ بھی حاصل کیا اُس کی اہمیت غیر معمولی ہوجاتی ہے۔ فٹ بال کی تاریخ میں کسی ٹیم نے اپنی شرکت کو اتنا بامعنی نہیں بنایا ہوگا جتنا کہ موروکو نے بنایا۔ اس کی حصولیابی اور کامیابی کو بیان کرتے ہوئے میڈیا نے جو الفاظ استعمال کئے وہ اپنے آپ میں بہت کچھ کہتے ہیں۔ میڈیا نے بیک زبان کہا کہ ’’یہ سیمی فائنل میں داخل ہونے والی پہلی عرب افریقی ٹیم ہے۔‘‘ اس مفہوم کی سرخیوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ میڈیا اور اس سے وابستہ لوگ کس طرح الفاظ کے انتخاب کے ذریعہ موجودہ عدم مساوات کو مشتہر کرتے ہیں۔ صرف اسپورٹس میں نہیں بلکہ عالمی فورموں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ تو ہوئیں سرخیاں۔ اس کے بعد آپ ذیلی سرخیوں کی طرف آئیے۔ ان میں کہا گیا کہ (مثال) موروکو کے غیر معمولی کھلاڑی یاسین بونو نے پریس کانفرنس کے دوران اپنی مادری زبان عربی میں اظہار خیال پر اصرار کیا جبکہ وہ کئی یورپی زبانیں جانتے ہیں۔ 
 ان سرخیوں کا اندازِ پیشکش جیسا بھی ہو، ان کے ذریعہ ایک پیغام عام تو ہوا جو ٹیموں اور کھلاڑیوں نے دینا چاہا۔ اس میں اُن مناظر کو بھی شامل کرلیجئے جو اسٹیڈیم میں دیکھنے کو ملے۔ وہاں فلسطینی پرچم لہرایا گیا، کھلاڑی فتح حاصل کرنے کے بعد سجدے میں گر پڑے اور اس طرح انہوں نے اپنی مسلم شناخت کو ظاہر کیا، یہ سب بہترین مثالیں تھی۔ اُسی اسٹیڈیم میں یہ بھی ہوا کہ عرب اتحاد پر زور دیا گیا اور یہ جذبہ تمام مقابلوں میں دیکھنے کو ملا۔ فٹ بال دیکھنے والے لاکھوں لوگوں نے اس جذبے کی ستائش اور حمایت کی۔ یہاں مَیں نے محض چند مثالیں پیش کی ہیں ورنہ جاپان سے سعودی عرب تک اور پھر سنیگال تک، ہر ٹیم نے کوئی نہ کوئی عوامی، ثقافتی اور سیاسی پیغام ضرور دیا جسے مین اسٹریم کا میڈیا نظر انداز نہیں کرسکا۔نیویارک ٹائمس میں شائع ہونے والے مضمون بعنوان ’’ ورلڈ کپ کی اَن آفیشیل ٹیم کا پرچم لہرانا‘‘ میں اس بات کی ستائش کی گئی کہ فلسطینی پرچم پورے وقار کے ساتھ لہرایا گیا اور یہی بات آسٹریلیا، برطانیہ اور دیگر کئی ملکوں کے میڈیا نے دُہرائی حالانکہ یہ وہ ممالک ہیں جہاں کی میڈیا کمپنیاں اسرائیل نواز ہیں۔ فلسطینی پرچم کے لہرائے جانے سے دُنیا بھر کے اجتماعی حافظے پر فلسطین کا نام نقش ہوا وہ بھی کچھ اس طرح کہ اس کے ساتھ عموماً استعمال کئے جانے والے الفاظ مثلاً تشدد، مظلومیت، شکست اور انتشار نہیں جڑے، بلکہ، محبت، اُمید، طاقت اور فتح جیسے نئے اور مثبت الفاظ جوڑے گئے۔ 
 حالانکہ دیگر کھیل بھی عوام کے احساسات کو پوری دُنیا کے سامنے لانے میں معاون ہوتے ہیں مگر فٹ بال کی بات ہی کچھ اور ہے۔ جس طرح سیاہ فامی کے باوجود ٹینس چمپئن شپ کیلئے ولیمس سسٹرس کا نام لیا جاتا ہے جن کا تعلق اُس طبقہ سے نہیں تھا جسے چمپئن بننے کا حقدار سمجھا جاتا ہے، اسی طرح فٹ بال کی چمپئن شپ یا ملکیت کا تصور بھی قطرورلڈ کپ کے باوجود عوامی ذہنوں میں محفوظ رہے گا کیونکہ یہ تصور محض ہار جیت کا نہیں ہے۔ یہ وسیع تر تصور اتحاد، اُمید، طاقت، سماجی تنازعات اور ان تمام کے ساتھ عوامی مزاحمت کا ہے۔ فٹ بال کے ذریعہ اس وسیع تصور کا عام ہونا بڑی بات ہے اور اُمید ہے کہ آئندہ جب بھی مقابلے ہونگے، یہ تصور فروغ پائیگا ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK