Inquilab Logo

طالب علم اور ممتحن

Updated: May 28, 2023, 10:33 AM IST | Mumbai

طالب علم اور ممتحن کا رشتہ بھی عجیب ہے۔ نہ تو طالب علم ممتحن کو جانتا اور دیکھ پاتا ہے نہ ہی ممتحن طالب علم کو، اس کے باوجود امتحانی پرچہ لکھتے وقت طالب علم کے تصور میں ممتحن اور پرچہ جانچتے وقت ممتحن کے تصور میں طالب علم ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔

Student
طالب علم

طالب علم اور ممتحن کا رشتہ بھی عجیب ہے۔ نہ تو طالب علم ممتحن کو جانتا اور دیکھ پاتا ہے نہ ہی ممتحن طالب علم کو، اس کے باوجود امتحانی پرچہ لکھتے وقت طالب علم کے تصور میں ممتحن اور پرچہ جانچتے وقت ممتحن کے تصور میں طالب علم ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ ایک معاصر انگریزی اخبار نے اپنی کل کی اشاعت میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس سے اس رشتے کی مزید پرتیں کھلتی ہیں۔ اخبار نے چند ممتحنوں سے گفتگو کے بعد لکھا ہے کہ امتحان گاہ میں بعض طلبہ ایسے ہوتے ہیں جو سوال کا جواب لکھنے کے بجائے کچھ اور لکھتے ہیں۔ مثلاً کسی نے پرارتھنا لکھ دی تو کسی نے شلوک۔ کسی نے ممتحن کے نام خط لکھا کہ وہ اسے کامیاب کردے۔ کوئی اس سے بھی آگے بڑھا اور پرچے میں سو روپے، دو سو روپے یا پانچ سو روپے کا نوٹ چپکا دیا۔ بعض طلبہ ایسے بھی پائے گئے جنہوں نے ممتحن کو دھمکی دی کہ اگر اس نے پاس نہیں کیا یعنی وہ فیل ہوا تو خودکشی کرلے گا۔ 
 آگے بڑھنے سے قبل اس سوال سے بحث ضروری معلوم ہوتی ہے کہ بعض طلبہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ وہ جوابات لکھنے کے بجائے کچھ اور کیوں لکھتے ہیں؟  اِس کی دو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک یہ ہے کہ اُنہوں نے پڑھائی نہیں کی۔ ممکن ہے سال بھر اسکول سے غائب رہے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پڑھائی تو کی مگر اُن کا دل نہیں لگا اور کتاب کھولنے کے بعد وہ کسی اور ہی جہان کی سیر کرتے رہے۔ والدین نے سمجھا کہ بچہ پابندی سے پڑھتا لکھتا ہے مگر بچہ عدم دلچسپی، کاہلی، سستی، پڑھائی لکھائی سے دوری اور لاپروائی کا شکار رہا۔ 
 دوسری وجہ اس کی یہ ہوسکتی ہے کہ طالب علم پڑھنے لکھنے میں طاق ہے، ذہین ہے، سستی اور کاہلی کا شکار نہیں ہے، کلاس میں پڑھائے گئے اسباق اُس کی سمجھ میں بھی آئے مگر اُس کے سر میں کوئی اور سودا تھا۔ غصہ اور برہمی یا انتقام کا جذبہ۔ ممکن ہے اُس کے والدین چاہتے ہوں کہ وہ ڈاکٹر بنے، انجینئر بنے اور وہ کچھ اور بننا  چاہتا ہو گا۔ اس لئے انتقاماً بے دلی اور بے کیفی کا اظہار کرتا رہا تاکہ نہ تو کامیاب ہو نہ ہی کریئر کے انتخاب کی ضرورت پیش آئے یعنی رہے بانس نہ بجے بانسری۔ ایسے طالب علم کو ماہرین نفسیات کے پاس لے جانا چاہئے تاکہ وہ اُس کی کیفیت کا نفسیاتی تجزیہ کرکے بتائیں کہ اس کے ساتھ کیا کیا جانا چاہئے۔
 ہرچند کہ ماضی میں بھی ممتحنوں کا ایسے طلبہ سے سابقہ پڑتا تھا، جیسا کہ بہت سے ممتحن بتایا کرتے تھے مگر ہمیں لگتا ہے کہ ماضی کے طلبہ جوابات نہ لکھ کر کبھی ڈرائنگ بنا دیا کرتے تھے کبھی لطیفے لکھ دیتے تھے، مگر، کسی نے بھی یہ نہیں لکھا تھا کہ اگر اسے کامیاب نہیں کیا گیا تو وہ خود کشی کرلے گا۔ یہ رجحان حالیہ دہائیوں میں مستحکم ہوا ہے اور طلبہ کے تئیں والدین، اساتذہ اور معاشرہ کو فکرمند کرنے کیلئے کافی ہے۔ خود کشی کا رجحان، ظاہر ہے کہ، فلموں اور ویڈیو ز کی دین ہے۔ بہت سے طلبہ جنہوں نے رزلٹ آنے کے بعد خود کشی کی اُنہوں نے ممکن ہے امتحانی پرچہ میں ممتحن کو دھمکی نہ دی ہو مگر اُن میں خود کشی کا رجحان موجود رہا ہوگا۔ الگ الگ طلبہ میں اس کی الگ الگ وجوہ ہوتی ہیں اس لئے جب بھی طلبہ میں بے کیفی، اُکتاہٹ، خوف، والدین اور سماج کے سوالوں کے جواب کی غیر معمولی فکر اور مستقبل کے تعلق سے بے چینی پائی جائے، اُنہیں ماہر نفسیات کے پاس لے جانا چاہئے۔ نوجوانوں کو جو قوم کا اثاثہ ہوتے ہیںبے دلی میں مبتلا نہیں دیکھا جاسکتا۔  n

student Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK