زلزلہ، سیلاب، سنامی یا طوفان بادو باراں ، نام سنتے ہی ہوش اُڑ جاتے ہیں اور جو کچھ ہوا اُس کی تصویری جھلکیاں دیکھنے سے قبل اندازہ ہوجاتا ہے کہ کیا ہوا ہوگا۔
EPAPER
Updated: September 13, 2023, 1:02 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
زلزلہ، سیلاب، سنامی یا طوفان بادو باراں ، نام سنتے ہی ہوش اُڑ جاتے ہیں اور جو کچھ ہوا اُس کی تصویری جھلکیاں دیکھنے سے قبل اندازہ ہوجاتا ہے کہ کیا ہوا ہوگا۔
زلزلہ، سیلاب، سنامی یا طوفان بادو باراں ، نام سنتے ہی ہوش اُڑ جاتے ہیں اور جو کچھ ہوا اُس کی تصویری جھلکیاں دیکھنے سے قبل اندازہ ہوجاتا ہے کہ کیا ہوا ہوگا۔ زلزلہ کی اطلاع پاتے ہی تباہ شدہ یا شکستہ عمارتوں ، ملبوں ، تباہ شدہ شہری سہولتوں ، تنصیبوں ، مہلوکین کی لاشوں اور اسپتالوں کی حالت ِ زار کا تصور اُبھرتا ہے۔ جب تصور کے ان منظرناموں کو زلزلہ کے اصل مناظر سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے تو اس تصدیق میں دیر نہیں لگتی کہ جو تصور میں تھا وہ ویسا ہی تھا جیسا تصویروں میں ہے۔ اسی لئے مراکش کے زلزلہ سے متعلق جتنی خبریں اب تک موصول ہوئی ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ سب جانی بوجھی ہیں ۔ یہی بات درد کے تعلق سے بھی کہی جاسکتی ہے کہ زلزلہ کے بعد تباہی کی کیفیت اور پسماندگان نیز متاثرین کا درد اور رنج وغم ہر جگہ ایک سا ہوتا ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔ تصویریں ایک جیسی ہوسکتی ہیں ، درد ایک جیسا نہیں ہوتا کیونکہ درد کی شدت کم زیادہ ہوتی ہے۔ یہی نہیں ، درد سہنے والے افراد کی کیفیت اور قوت برداشت بھی مختلف ہوتی ہے۔ درد کے کم یا زیادہ ہونے کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ کس کا کیا چھن گیا اور کس کا کیا باقی رہ گیا۔ متاثرین میں درد سہنے کی قوت اس لئے بھی مختلف ہوتی ہے کہ کسی کو دلاسہ دینے والے ہزار لوگ ہوتے ہیں اور کسی کو دلاسہ دینے والا کوئی نہیں ہوتا اسی طرح جیسے کسی ملک میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے اور کسی میں کم۔
ہم مراکش سے ۸؍ ہزار کلومیٹر کی دوری پر ہیں اور یہاں بیٹھ کر تباہی تو دیکھ سکتے ہیں ، ہلاکتوں کے اعدادوشمار پر بھی نگاہ ڈال سکتے ہیں مگر درد کو نہیں سمجھ سکتے۔ کسی کنبہ کا ایک فرد زندہ بچ گیا باقی سب فوت ہوگئے اور کسی خاندان کے ایک سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے مگر اُتنے ہی خدا کے فضل سے زندہ ہیں ۔ اس پس منظر میں یہ فیصلہ کرنا بھی دشوار ہے کہ جس فرد کے متعدد اعزہ انتقال کرگئے اُس کا غم زیادہ ہے یا اُس کا جو اَب بھی ملبہ ہٹنے کا منتظر ہے اور اُمید ختم ہوجانے کے باوجود اپنے پیاروں کے ملبے سے نکلنے کا انتظار کررہا ہے؟ اسی لئے ہم نے کہا کہ سب ایک ہی حادثہ سے دوچار ہوں تب بھی درد کی کیفیت سب میں جدا ہوتی ہے۔
زلزلہ زدگان سے ہمدردی رکھنے والے پوری دُنیا کے ہم ایسے لوگ اُن کے درد کو سمجھنا چاہیں تو بھی مشکل ہے اور اگر کچھ کرنا چاہیں تو بھی مشکل ہے۔ اس کے باوجود رواں سال کے اوائل میں جب ترکی اور شام بھیانک زلزلہ کی زد پر آئے تھے تب ہندوستانی عوام اور تنظیموں نے نہ صرف یہ کہ راحتی سازوسامان کا انتظام کیا بلکہ سفارتخانے کی مدد سے اُسے متاثرین تک پہنچانے کا جتن بھی کیا تھا۔ اب جو تنظیمیں مراکش کیلئے بھی کچھ ایسا کرنے کیلئے کمربستہ ہیں تو یہ قابل ستائش ہے۔ اس ارادہ کو روبہ عمل لانے میں اُنہیں صاحبان خیر سے یقینی طور پر مدد ملے گی۔ دُنیا کو پوری انسانیت کا کنبہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ درد کا رشتہ اُنہیں ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے خواہ رنگ و نسل کا فرق ہو یا کوئی اور تفاوت۔ حالی ؔ نے کہا تھا: ’’یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدیٰ کا = کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا‘‘۔ اسی کو انسانی رشتہ کہتے ہیں جو دُنیا کے تمام انسانوں کو اُخوت کی ڈور میں پروتا ہے۔ شام اور ترکی کے بعد اب مراکش کیلئے دل روتا ہے۔ ایسے میں ہم بھرپور مدد کرپائیں یا نہ کرپائیں ، متاثرین کیلئے دست بہ دُعا تو بہرحال رہنا چاہئے۔ اِتنا تو ہم کرہی سکتے ہیں ۔