Inquilab Logo

ہیں تنگ بہت بندۂ مزدور کے حالات

Updated: May 18, 2023, 10:28 AM IST | Mumbai

ساگر (مدھیہ پردیش) کا یہ واقعہ دل دہلانے والا ہے۔ یہاں وزیر اعلیٰ شیو راج چوہان ایک عوامی جلسے سے خطاب کررہے تھے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

ساگر (مدھیہ پردیش) کا یہ واقعہ دل دہلانے والا ہے۔ یہاں وزیر اعلیٰ شیو راج چوہان ایک عوامی جلسے سے خطاب کررہے تھے۔ اتنے میں ایک مزدور نے اپنے ایک سالہ بیٹے کو اُٹھا کر اسٹیج کی جانب پھینک دیا۔ بچہ شہ نشین سے ایک فٹ کے فاصلے پر گرا۔ وزیر اعلیٰ سمیت تمام پارٹی لیڈران اور سامعین چونک پڑے، سیکوریٹی فوری طور پر حرکت میں آگئی، مزدور کو گرفت میں لے لیا گیا او رجب پوچھ تاچھ ہوئی تو معلوم ہوا کہ جس بیٹے کواُس نے اسٹیج کی جانب پھینکا ہے، اُس کے دل میں سوراخ ہے اور وہ اُس کا علاج کروانے کیلئے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے مگر کہیں سے کوئی مدد نہیں مل رہی ہے۔ جب اُس مزدور سے دریافت کیا گیا کہ علاج ایک چیز ہے اور بچے کو اُٹھا کر پھینکنا دوسری چیز ہے تو اُس کا جواب تھا کہ اُس نے وزیر اعلیٰ کی توجہ اپنے مسئلہ کی جانب مبذول کروانے کیلئے ایسا کیا ہے۔
 کتنا دردناک واقعہ ہے یہ! کسی باپ میں اپنے بچے کو اُٹھا کر پھینکنے کی تاب تب ہی پیدا ہوسکتی ہے جب وہ حد سے زیادہ پریشان ہو اور اُسے کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو۔ اس کے باوجود وزرائے اعلیٰ اپنی ریاست کو ’’وِکست راجیہ‘‘ قرار دینے میں تردد نہیں کرتے۔ ہمیں فوری طور پر یاد آیا اُدیشہ کا دانا ماجھی، جو اپنے بیوی کی نعش اپنے کندھوں پر اُٹھائے پیدل چلنے پر اس لئے مجبور ہوا تھا کہ اُسے ایمبولنس فراہم نہیں کی گئی تھی۔ وہ ۱۰؍ کلومیٹر تک اسی طرح چلتا رہا تب کہیں جاکر ایک صحافی نے اُس کا دُکھ سمجھا اور اپنے اثرورسوخ کا استعمال کرتے ہوئے اُس کو کچھ سہولت بہم پہنچا دی۔ اگست ۲۰۱۶ء کے اِس واقعہ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا مگر اس مشینی دور میں عوام بھی اتنے مصروف ہوگئے ہیں کہ کوئی واقعہ اُنہیں تھوڑی دیر کیلئے ہی متوجہ کرپاتا ہے۔ اس کے بعد اُن کی زندگی معمول پر آجاتی ہے ایسے ہی کسی دوسرے واقعے پر چونکنے کیلئے۔ عوام کے اسی طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ ارباب اقتدار بھی ایسی چیزوں کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیتے۔ وہ فوری طور پر چند احکام جاری کردیتے ہیں مگر مسئلہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے کہ جو ہوا وہ کیوں ہوا، آئے دن ایسا کیوں ہوتا ہے اور آئندہ ایسا نہ ہو اس کیلئے کیا کیا جانا چاہئے۔
 جس مزدور نے اپنے بیٹے کو اسٹیج کی جانب اُٹھا کر پھینکا، اُس کا نام مکیش پٹیل ہے۔ ملک میں ایسے ہزاروں مکیش پٹیل ہوں گے جن کا درد سمجھنے والا کوئی نہیں ہے۔ انہیں سرکاری اسپتالوں میں وہ توجہ نہیں ملتی ہے جس کے وہ حقدار ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دور میںمنظر عام پر آنے والی مزدوروں کی دلخراش داستانوں کے عام ہونے کے باوجود اگر آج بھی مزدوروں کے ساتھ وہی سب کچھ ہورہا ہے وہ پہلے ہوتا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے کورونا کے دور میں صحت ِ عامہ کے مسائل  اور لاک ڈاؤن کے کربناک حالات سے کچھ نہیں سیکھا۔ 
 مزدور آج بھی پس رہا ہے۔ اُسے نہ تو ٹھیک طریقہ سے کام ملتا ہے نہ ہی کام کا خاطرخواہ محنتانہ۔ حکومت نے لاک ڈاؤن میں مزدوروں کیلئے اُٹھنے والی آوازوں کے پیش نظرچند اقدامات کو راہ دی تھی مگر اُن کی وجہ سے مزدوروں کے روز و شب میں کوئی واضح فرق نہیں آیا۔ غیر منظم زمرہ کے یہ مزدور بالخصوص مہاجر مزدور غذااور صحت کیلئے جتنے پریشان کل تھے اُتنے ہی آج بھی ہیں۔ ہمارے پاس ’’پردھان منتری شرم یوگی مان دھن یوجنا۲۰۲۳ء‘‘ سے پیدا شدہ کسی خوشگوار تبدیلی کی اطلاع نہیں ہے جو یکم فروری کو وزیر اعظم نے جاری کی ہے مگر ہم اتنا جانتے ہیں کہ مکیش پٹیل میں بچے کو اُٹھا کر پھینکنے کی جرأت نہ ہوتی اگر سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوتا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK