Updated: March 05, 2023, 10:48 AM IST
| Mumbai
ڈراپ آؤٹ کی شرح۔ اس پر تشویش سب کو رہتی ہے مگر اس کیلئے ٹھوس علمی قدم نہیں اُٹھائے جاتے۔ انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک کا جائزہ لے لیجئے، نہ تو افراد ڈراپ آؤٹ روکنے کیلئے سرگرم دکھائی دیتے ہیں نہ ہی اجتماعی اقدامات کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
ڈراپ آؤٹ کی شرح۔ اس پر تشویش سب کو رہتی ہے مگر اس کیلئے ٹھوس علمی قدم نہیں اُٹھائے جاتے۔ انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک کا جائزہ لے لیجئے، نہ تو افراد ڈراپ آؤٹ روکنے کیلئے سرگرم دکھائی دیتے ہیں نہ ہی اجتماعی اقدامات کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ سرکاری سطح پر بھی ٹھوس عملی اقدامات کا فقدان ہے۔ قومی سطح پر ڈراپ آؤٹ کی شرح ۱۴ء۶؍ فیصد ہے مگرمغربی بنگال، گجرات، بہار اور تری پورہ جیسی ریاستوں میںیہ شرح قومی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت کی خواہش ہے کہ ۲۰۳۰ء تک اسکولوں میں داخلہ ۱۰۰؍ فیصد ہو یعنی جتنے بچے اسکول میں داخلے کی عمر میں آ چکے ہیں وہ لازماً داخل ہوجائیں۔ اگر اِس مقصد میں کامیابی حاصل کرلی گئی تب بھی ضروری نہیں کہ ڈراپ آؤٹ کا مسئلہ حل ہوجائیگا۔ دوسرا مسئلہ پہلے مسئلہ کے حل کے باوجود سر اُبھار سکتا ہے۔ وہ ہے چند جماعتوں میں جیسے تیسے کامیاب ہونے کے بعد اسکول چھوڑ دینا۔ اگر بچوں کا اسکول میں داخل ہی نہ ہونا مسئلہ ہے تو داخل ہوکر اسکول نہ جانا یا چند سال بعد اسکول چھوڑ دینا اُس سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔ بعض طلبہ بورڈ امتحان کامیاب کرلینے کے بعد آگے نہیں پڑھتے۔ بعض جونیئر کالج کے بعد سلسلہ ٔ تعلیم منقطع کردیتے ہیں۔ ڈراپ آؤٹ کوئی معمولی مسئلہ نہیں۔ یہ نہایت پیچیدہ ہے۔ اس لئے اس کے مضمرات پر سنجیدہ غوروفکر ہونا چاہئے۔ یہ عمل قومی سطح پر تو ہو، علاقائی سطح پر بھی ہونا چاہئے بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ ایک ایک شہر کے لوگوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے کہ ہمارے شہر میں ڈراپ آؤٹ کے اسباب کیا ہیں اور ہم ان کے سدباب کیلئے کیا کرسکتے ہیں۔ اس طرح ایک لائحہ عمل بنے جس پر باقاعدہ عمل ہو۔ ڈراپ آؤٹ کو روکنا صرف سرکار کی ذمہ داری نہیں۔ یہ سماج کی بھی ذمہ داری ہے۔
ڈراپ آؤٹ کی سب سے بڑی وجہ غر بت ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ متمول خاندانوں کے بچے شاذونادر ہی اسکول چھوڑتے ہیں۔ غریب خاندانوں کے بچوں پر کئی طرح کے دباؤ ہوتے ہیں۔ فیس کیلئے پیسے نہیں ہیں، کتابوں بیاضوں کا خرچ نہیں اُٹھایا جاسکتا، بچہ پڑھے گا تو خرچ ہوگا جبکہ کمائے گا تو گھر کے اخراجات میں سہولت ہوجائیگی وغیرہ۔ معاشی مسئلہ سب سے بڑا سبب ہے۔ اس کیلئے اگر ایک ایک شہر میں فنڈ قائم ہو اور غریب نیز پسماندہ طلبہ کی تعلیمی کفالت کا سلسلہ دراز ہو تو ڈراپ آؤٹ کی شرح میں قابل قدر حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔
والدین کی بیداری بھی اہمیت کی حامل ہے۔ جب تک والدین یہ طے نہیں کرتے کہ غربت ہو یا دیگر مسائل، ہم بچوں کو پڑھائی سے نہیں روکیں گے، تب تک سب کے تعلیم یافتہ ہونے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔سرکاری محکمے جو بیداری لاسکتے ہیں، لائیں گے، اس سے زیادہ ضروری ہے کہ سماج کے ذمہ داران اس بیداری کیلئے کمربستہ ہوں تاکہ والدین بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے کام کاج پر مامور کرنے کے رجحان سے باز آئیں۔
اسکولوں میں پڑھائی ہوتی ہے یا نہیں؟یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اگر اساتذہ نہیں ہوں گے تو والدین کو اچھا خاصا بہانہ مل جائیگا کہ کیوں بھیجیں جب پڑھائی نہیں ہوتی۔ یہ کام براہ راست سماج کا نہیں ہے مگر سماج محکمۂ تعلیم پر دباؤ ڈالے تو اس کمی کو بھی پورا کیا جاسکتا ہے۔ یہ اور اس طرح کی تمام باتوں پر غور کیا جائے اور مسئلہ کے اعتراف کے ساتھ اس کے حل کی سنجیدہ کوشش ہو تو حالات بدلیں گے اور اس مسئلہ کی سنگینی کم ہوگی جو کورونا کےسبب شدت اختیار کرگیا تھا۔n