Inquilab Logo

اپوزیشن اتحاد ملک کی نئی سیاسی تاریخ لکھے گا؟

Updated: June 29, 2023, 12:44 AM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

نتیش کمار کی قیادت میں پٹنہ کا یہ تاریخی اتحادی اجلاس ملک کے عوام کو یہ مثبت پیغام دینے میںبھی کامیاب رہا کہ بہار کی سرزمین سے ایک بار پھر ملک کی آمرانہ حکومت کے خاتمہ کیلئے جو صدا بلند ہوئی ہے وہ صدا بہ صحرا ثابت نہیں ہوگی۔

Opposition Alliance
اپوزیشن اتحاد

بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے محض چھ ماہ قبل جب مرکزی حکومت کے خلاف ملک کی تمام اپوزیشن کو متحد کرنے کا ڈول ڈالا تھا لیکن کسی کو یہ یقین نہیں ہو رہا تھا کہ واقعی نتیش کمار کی یہ کوشش ثمر آور ہوگی۔ گزشتہ۲۳؍جون ۲۰۲۳ء کوپٹنہ میں منعقد اپوزیشن اتحاد میٹنگ کی کامیابی نے یہ ثابت کردیا کہ ملک کا سیاسی مزاج کیا ہے ۔موجودہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی لاکھ کوششوں کے باوجود نتیش کمار کی جد وجہد کامیاب ہوئی ۔اگرچہ ہندوستانی عوام مورچہ کے سپریمو جیتن رام مانجھی بہار کی عظیم اتحاد سے الگ ہو کر بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان ضرور کردیا مگر اس سے نہ بہار میں موجودہ عظیم اتحاد کی صحت پر کوئی اثر ہونے والا ہے اور نہ اپوزیشن اتحاد کے لئے کوئی بڑا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔اس میٹنگ میں پندرہ سیاسی جماعتوں کا سر جوڑ کر بیٹھنا ہی ایک بڑی کامیابی ہے کہ ملک کے بڑے سے بڑے سیاسی پنڈتوں کو بھی یہ گمان نہیں تھا کہ یہ سبھی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں گے اور سبھی ایک سُر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف اپنے تمام تر سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر متحد ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ اس اتحاد میں بہوجن سماج پارٹی کی سپریمو مایا وتی کا شامل نہ ہونا یہ خدشہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پہلے سے ہی بی جے پی کے تئیں نرم ہیں ۔ اُدیشہ کے نوین پٹنایک اور تلنگانہ کے چندر شیکھر رائوکی بھی اپنی مجبوریاں ہیں کہ وہ اپنی علاقائی شناخت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اور کانگریس سے کہیں نہ کہیں دوری بنا کر رہنا ہی ان کے سیاسی مفاد میں ہے۔ترنمول کانگریس کی ممتا بنرجی کے بارے میں بھی یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ وہ اس تاریخی میٹنگ میں شامل نہیں ہوں گی لیکن انہوں نے جس جوش وخروش کے ساتھ موجودہ مرکزی حکومت کو اقتدار سے باہر کرنے کے لئے اپوزیشن اتحاد کو مستحکم کرنے کی وکالت کی ہے اس سے یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ شرد پوار ہوں یا عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی ہوں یا شیو سیناکے ادھو ٹھاکرے،آپ کے اروند کیجریوال یا سماجوادی پارٹی کے اکھلیش یادو ، جھارکھنڈ مکتی مورچہ ہو یا بایاں محاذ کی پارٹیاں، جنوبی ہند کی طاقت اور سیاسی جماعت کے رہنما اسٹالن ہوں یا بھاکپا مالے کے دیپانکر بھٹا چاریہ سب کے سب موجودہ حکومت کی آمریت اور غیر جمہوری عمل سے نالاں ہیں اور ملک میں جس طرح کی غیر آئینی فضا قائم کی جا رہی ہے اور مذہبی منافرت پیدا کی جا رہی ہے اس کے خلاف ہیں ۔کانگریس لیڈر راہل گاندھی کا یہ بیان کہ ملک میں نفرت کے خلاف محبت کی فضا قائم کرنا ہے ، واقعی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی مسخ ہوتی شبیہ کے تحفظ کے لئے ضروری ہے ۔یہ حسنِ اتفاق ہے کہ جس دن پٹنہ میں اپوزیشن اتحاد کی میٹنگ ہو رہی تھی اسی دن ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی امریکہ کے دورہ پر تھے اور وہاں کے صحافیوں کے ذریعہ ان سے یہ سوال کیا جا رہا تھا کہ ہندوستان میں اقلیت طبقے کے ساتھ جو امتیازات اور تعصبات کی فضا قائم ہوئی ہے اس کے متعلق ان کی کیا رائے ہے۔ ساری دنیاکے سامنے ہمارے وزیر اعظم اس سوال کا بالواسطہ جواب دینے سے کس طرح قاصر رہے اور جمہوریت کی دہائی دے کر نکلنے کی کوشش کی۔ اس سے پوری دنیا میں یہ پیغام گیا کہ وطنِ عزیز کے موجودہ حالات سے دنیا کس قدر آگاہ ہے اور تحفظ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں کتنی فکر مند ہیں۔ 
 بہر کیف! بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے متعلق یہ بات ہمیشہ کہی جاتی ہے کہ وہ اپنی دُھن کے پکے ہیں اور سیاست کی شطرنجی چال کے ماہر ہیں۔بھاجپا کے ساتھ رہ کر وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی اندورنی حقیقتوں سے بھی واقف ہیں اور سنگھ پریوار کی زہر آلود پالیسیوں سے بھی آگاہ ہیں ۔ وہ ملک کی تمام علاقائی سیاسی جماعتوں کی ترجیحات اور مفادات سے انجان نہیں ہیں اور شاید اس لئے انہوں نے کانگریس کے تمام لیڈران سے بارہا مل کر اور بالخصوص سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کویہ بات سمجھانے میں کامیاب ہوئے کہ بغیر علاقائی جماعتوں کو متحد کئے موجودہ حکمراں جماعت کو شکست فاش دینا مشکل ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اب تک موجودہ حکمراں جماعت کو پارلیمانی انتخابات اور مختلف ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں کامیابی اس لئے ملتی رہی ہے کہ غیر بھاجپائی جماعتوں کے ووٹوں میں انتشار رہاہے۔ جہاں کہیں بھی کانگریس کا سیدھا مقابلہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے رہا ہے وہاں کانگریس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست دی ہے۔حالیہ کرناٹک اسمبلی انتخاب اور ہماچل پردیش کے نتائج یہ ثابت کرتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں کانگریس کے اندر جو انتشار تھا اس میں کمی واقع ہوئی ہے اور حالیہ راہل گاندھی کی فعالیت نے کانگریس کے ووٹوں میں اضافہ بھی کیا ہے۔اس لئے تمام علاقائی سیاسی جماعتوں کو بھی اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ وہ کانگریس کی طاقت کے بغیر مودی حکومت کو اقتدار سے بے دخل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آئندہ ۱۲؍جولائی کو ہماچل پردیش میں ایک بار پھر یہ تمام پندرہ سیاسی جماعتیں ایک ٹیبل پر سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور اس کی ذمہ داری کانگریس کے قومی صد ر ملک ارجن کھرگے کو دی گئی ہے ۔اس میٹنگ میں نئے اتحاد کے نام کے ساتھ آئندہ پارلیمانی انتخابات کے لئے ٹھوس لائحہ عمل تیار کئے جائیں گے۔
 مختصر یہ کہ نتیش کمار کی قیادت میں پٹنہ کا یہ تاریخی اتحادی اجلاس ملک کے عوام کو یہ مثبت پیغام دینے میںبھی کامیاب رہا کہ بہار کی سرزمین سے ایک بار پھر ملک کی آمرانہ حکومت کے خاتمہ کے لئے جو صدا بلند ہوئی ہے وہ صدا بہ صحرا ثابت نہیں ہوگی بلکہ جے پی تحریک کی طرح ملک کی نئی سیاسی تاریخ لکھنے میں کامیاب ہوگی کہ چہار سمت سے بس ایک ہی صدا بلند ہو رہی ہے کہ نتیش کمار کی کوشش رائیگاں نہیں جائے گی ۔ ظاہر ہے کہ جب کانگریس جیسی قومی سیاسی جماعت نے دو قدم آگے بڑھ کر تمام علاقائی سیاسی جماعتوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے آئندہ پارلیمانی انتخابات میں سیٹوں کی تقسیم کے معاملے میں افہام وتفہیم کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور قدرے نرم روی کا مظاہرہ کیاہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ نتیش کمار کا یہ فارمولہ کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدواروں کے خلاف اپوزیشن اتحاد کا صرف ایک امیدوار ہوگا تو نتیجہ جگ ظاہر ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی لاکھ کوششوں کے باوجود اس کے ووٹوں کا فیصد ۴۰؍فیصد تک نہیں پہنچ پایا ہے تو ایسی صورت میں اپوزیشن اتحاد موجودہ حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں بڑی کامیابی مل سکتی ہے۔بس ضرورت اس بات کی ہے کہ پارلیمانی انتخابات کے اعلان تک یہ اتحاد اسی طرح تمام تر سازشوں سے محفوظ رہ کر ملک وقوم کے مفاد میں اپنے ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے جس کی وکالت اس وقت اپوزیشن اتحاد بہ یک آواز کر رہا ہے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK