اردگان کی فتح کا جشن تمام ترکیہ میں منایا جانا بالکل فطری بات تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہی تھی کہ اردگان کی معاشی اور دیگر پالیسیوں کو عوامی ہمدردی حاصل تھی۔
EPAPER
Updated: June 06, 2023, 10:42 AM IST | Hasan Kamal | Mumbai
اردگان کی فتح کا جشن تمام ترکیہ میں منایا جانا بالکل فطری بات تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہی تھی کہ اردگان کی معاشی اور دیگر پالیسیوں کو عوامی ہمدردی حاصل تھی۔
بر اعظم ایشیاء کے خطہ ترک نے اب اپنا نام بدل کر تُرکیہ رکھ لیا ہے۔اردگان کی انتخابی فتح الیکشن کے دوسرےراؤنڈ میں ہوئی ہے۔ اتفاق سے یہ بھی ایک تاریخی واقعہ ہے۔ترکیہ کے نظام کے مطابق صدر اسی کو مانا جاتا ہے، جب اس نے الیکشن میں پڑنے والے ووٹوں کی ۵۰ ؍فیصد تعداد پائی ہو۔ پہلے راؤنڈمیں اردگان کے حریف اور پیوپلس ریپبلکن پارٹی کے امیدوار کمال کلچدارلو مد مقابل تھے۔ یہ الیکشن۱۴ ؍مئی۲۰۲۳ء کو ہوا تھا۔ اردگان اس میں کامیاب ہوئے تھے ، لیکن انہوں نےمنجملہ ۴۹ء۰۶؍ووٹ پائے تھے یعنی پچاس فیصد سے ذرا ہی کم۔ اس لئے انہیں دوبارہ انتخاب لڑنا پڑا۔ دوسرا رائونڈ ۲۸؍ مئی کو ہوا۔ اس بار اردگان کو ۵۳؍ فیصدسے بھی زیادہ ووٹ ملے اور انہیں ترکیہ کا صدر قراردے دیا گیا۔
اردگان اور ان کے سیاسی حریف میںبنیادی طور پر کوئی بڑے نظریاتی اختلافات نہیں تھے۔ ترکیہ یوں بھی ایشیاء کا ایک ایسا ملک ہے جہاں ۹۵ ؍فیصدمسلمان ہیں۔ ان کی اکثریت سنی ہے۔ یعنی وہاں مذہبی طور پر کوئی بڑے تضادات نہیں ہیں، بس اردگان کے حریف کو امریکہ کے زیادہ قریب سمجھا جاتا ہے۔لیکن اس بار الیکشن کو اردگان کے لئے زیادہ سخت سمجھا جارہاتھا۔امریکہ عام طور پر اردگان کا مخالف سمجھاجاتا ہے۔امریکہ نے ترکیہ پر کئی طرح کی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ ترکیہ میں ڈالر اتنا مضبوط ہےکہ ترکیہ کے سکوں کی حیثیت بہت نیچے آ چکی ہے۔عالمی کساد بازاری کی وجہ سے بھی ملک کو بہت معاشی نقصان ہوا ہے۔ امریکہ اردگان کی روس سے دوستی کے بھی خلاف ہےلیکن ان سب سے الگ ترکی میں حال ہی میں آئے ہوئے قیامت صغریٰ کی طرح کا زلزلہ تھا، جس میں ساٹھ ہزار سے بھی زیادہ ہلاکتیں ہوئیںاور اربوں کی مالیت کے نقصانات ہوئے۔اربوں ڈالر کے نقصان کی بھرپائی تو سعود ی عرب کی مدد سے ہوگئی لیکن جانی نقصان کی بھرپائی ممکن نہیں ہے ۔
فلسطین کے لئے یوں تو دنیا بھر میںہمدردی اور تحسین آفرینی کا دور دورہ ہے لیکن فلسطین کی ساری پڑوسی عرب ریاستوں میں اس ہمدردی کا کم سے کم سربراہوں کی حد تک فقدان ہے۔گلوبل طور پر سمجھا جارہا تھا کہ اردگان الیکشن نہیں جیت پائیں گے، لیکن لوگ یہ بھول رہے تھے کہ زلزلہ کے بعد اردگان قوم کیلئے گھر چھوڑ کر باہر نکل پڑے۔ انہوں نے اپنی ساری جائیدادیں بیچ کر قوم کو دے دیں۔
اردگان کی فتح کا جشن تمام ترکیہ میں منایا جانا بالکل فطری بات تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہی تھی کہ اردگان کی معاشی اور دیگر پالیسیوں کو عوامی ہمدردی حاصل تھی، لیکن زیادہ بڑی وجہ یہ تھی کہ اس سال جولائی کے مہینے میں ترکیہ اور سلطنت برطانیہ کا وہ معاہدہ ختم ہونے والا ہے ، جس کے بعد ترکیہ میں اہم معاشی انقلاب کا دور شروع ہو سکتا ہے۔ ہم ان شاء اللہ آپ کواس بابت ضرور مطلع کریں گے۔ فتح کے جشن کے لئے تمام ترکیہ کا آسمان آتش بازیوں کے رنگ سے رنگا ہوا تھا۔ لیکن جشن کا جو سماں سرزمین فلسطین میں دیکھا جا رہا تھا وہ یقیناً بے مثال تھا۔اب سے دو ماہ قبل جب اسرائیل اور عرب ممالک میں دوستی کی پینگیں بڑھ رہی تھیں اور عرب ممالک اسرائیل کی طرف لپک رہے تھے تو ظاہر ہے فلسطین میں شدید غم و غصہ تھا۔عجیب بات ہے کہ ان حالات میں صرف ترکیہ اورر ایران ہی اسرائیل کے شدید مخالف تھے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ یہی دو ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات بھی قائم کئے ہوئے تھے۔ پھر بھی فلسطین کو ا ن سے بڑی آس تھی۔ یوں تو تمام عرب عوام میں اردگان کی فتح پر مبارک باد دی گئی تھی ، لیکن فلسطین میں تو اردگان کی فتح کو اپنی ہی فتح سمجھا جا رہا ہے۔ انہیں امید ہے اور بجا طور پر درست امید ہے کہ ترکیہ ااور ایران اس مسئلہ کو حل کرا کے چھوڑیں گے۔
طیب اردگان کی انتخابی جیت کا نہ صرف پاس پڑوس میںبلکہ دنیا بھر میں خوشی ظاہر کی گئی ہے۔پہلے یورپی یونین کے بعض ممالک کا یہ پروپیگنڈہ تھا کہ وہ عیسائی مخالف سیاست داں ہیں۔ اس کی بڑی وجہ استنبول میں مسجد عالیہ کی تعمیر تھی۔ کہا جاتا تھا کہ یہ مسجد جس جگہ بنائی گئی تھی وہاں عیسائیوں کا ایک چرچ ہواکرتا تھا۔ یہ پروپیگنڈہ جھوٹا تھا۔ وہاں کبھی کوئی چرچ نہیں تھا، لیکن اردگان کے برسر اقتدار آنے کے بعد ملک میں کئی عیسائی مسلم آرتھوڈیکس گریک ( جنہیں کیتھولک عیسائی مانتے ہی نہیں ) یہ عمارت اردگان سے پہلے ہی ایک خریداری کے ذریعے لے لی گئی تھی اور اس کے سارے ریکارڈس محفوظ ہیں۔ اردگان کے آنے کا سارے ایشیاء میں خیر مقدم کیا گیا ہے لیکن ہندوستان کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ کشمیر کے سول پر ترکیہ نے قدرے سستی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حال ہی میں کشمیر میں ہونے والے ’جی ۲۰ ‘کے اجلاس میں چین کے علاوہ سعودی عرب ، مصرکے ساتھ ترکیہ نے بھی حصہ نہیں لیا تھا۔اقوام متحدہ میں بھی ترکیہ عام طور پر چین کے ساتھ ہی رہتا ہے۔
ان کالموں میں کئی بار بتایا گیا ہے کہ ایشیاء میں چین، روس، ایران ،افغانستان اور پاکستان کی ایک مشترکہ معاشی پالیسی بنائی جا رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ بعد میں عرب ممالک بھی اس میں وابستہ ہو جائیں۔ اس صورت میں ہندوستان کے معاشی پالیسی سازوں کو اس کے بارے میں غور سے سوچنا پڑے گا۔
اردگان کی آمدکے بعد کوئی ایسا معاملہ بھی نہیں کہ ترکیہ اچانک کوئی بڑی عسکری طاقت بن جائے گا۔ ترکیہ کے کسی پڑوسی ملک سے کوئی بغض عداوت بھی نہیں ہے۔ ایک قبرص کا جھگڑا ضرور ہے، لیکن ترکیہ اورقبرص دونوں یورپی یونین کے ممبر ہیں اور اس یونین کے مطابق دونوں میں کوئی فوجی تصادم کی گنجائش موجود نہیں ہےلیکن ترکیہ ایک بڑی معاشی طاقت بننے والا ہے اور یہیں سے ہندوستان کا معاملہ شروع ہوتا ہے۔ ہندوستان اور ترکیہ کے تعلقات میں نہ کبھی کوئی گرمجوشی تھی اور نہ ہی اعتماد۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک نئی معاشی پالیسی میں ہندوستان اپنے آپ کو کہاں رکھے گا۔ مودی سرکار سے اس کی توقع فضول ہے لیکن بعد کے حکمرانوں کو اس معاملے میں سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا۔