Inquilab Logo

رَٹنے کی روِش

Updated: June 06, 2021, 7:25 AM IST | Mumbai

ملک میں تعلیم کی صورت حال سے عموما ً وہ طلبہ بھی خوش نہیں رہتے جو امتیازی نشانات سے کامیاب ہوکر ترقی کی نئی سمتوں کا سفر کرتے ہیں۔

Usually those students are not happy with the education situation in the country.Picture:Midday
ملک میں تعلیم کی صورت حال سے عموما ً وہ طلبہ بھی خوش نہیں رہتے تصویر مڈڈے

 ملک میں تعلیم کی صورت حال سے عموما ً وہ طلبہ بھی خوش نہیں رہتے جو امتیازی نشانات سے کامیاب ہوکر ترقی کی نئی سمتوں کا سفر کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کو یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے کیا یاد کیا تھا، کب کیا تھا اور اس سے مارک شیٹ کے پرکشش ہونے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ پانے کے علاوہ انہیں کیا ملا۔ چونکہ تعلیمی نظام ہی ایسا ہے اس لئے مضمون اور موضوع کی فہم سے زیادہ مارک شیٹ پر درج مجموعی نمبرات اور فیصد کی اہمیت ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ جب ہمارے نوجوان بغرض ملازمت، انٹرویو کیلئے بلائے جاتے ہیں تو کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار اُن کے جوابات سے مطمئن نہیں ہوتے۔ بہت سی کمپنیاں ’’اِن ہاؤس ٹریننگ‘‘ دے کر اُنہیں متعلقہ منصب کیلئے تیار کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔
 اسباق کو یاد کرنے کی بڑی اہمیت ہے مگر سمجھے بغیر یاد کرنے سے نہ تو اعتماد پیدا ہوتا ہے نہ ہی موضوع یا مضمون پر عبور حاصل ہوتا ہے۔ اس عمل کو عام بول چال میں رٹا ّ مارنا، رٹنا یا رَٹ لینا کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں روٹ (Rote)لرننگ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ابتدائی جماعتوں میں پہاڑے، تاریخ کے سن عیسوی، گرامر کے اُصول، تاریخیں، ریاضی کے ضابطے وغیرہ کی حد تک تو یہ رجحان ٹھیک ہے مگر جب یہی رجحان طالب علموں کے ساتھ سفر کرتا ہوا اگلی منزلوں تک پہنچتا ہے جہاں اُسے بہت سی چیزوں کو سمجھنے، اُن پر غور کرنے اور اُن سے کوئی نتیجہ نکالنے کی ضرورت ہوتی ہے تب یہ رجحان درجنوں نقصانات کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ روٹ لرننگ کاایک نقصان یہ ہے کہ اس سے ذہن محدود ہوجاتا ہے، کسی مسئلہ کو حل کرنے کی استعداد پیدا نہیں ہوتی، غوروخوض کی عادت مستحکم نہیں ہوتی اور جو یاد کیا اُسے بھول جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ جب  طالب علم رٹی ہوئی چیزوں کی ڈور کا کوئی ایک سرا کھو دیتا ہے تب پوری ڈور اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے یا اس کیلئے بے معنی ہوجاتی ہے۔
 رٹنے والے طالب علم کی فہم بھی محدود رہتی ہے۔ اُس نے جتنا یاد کیا، جو یاد کیا اور جس انداز میں یاد کیا وہی اس کا کل اثاثہ ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی سوال گھما پھرا کر پوچھ لیا جائے یا کسی سبق سے اُس میں پیدا ہونے والی ممکنہ استعداد کی بنیاد پر اُسی سطح کا کوئی اور سوال کرلیا جائے تو اس کےہاتھوں کے طوطےاُڑ جاتے ہیں۔ رَٹنے کی وجہ سے طالب علم میں وہ اعتماد بھی پیدا نہیں ہوتا جو اسباق کو سمجھ لینے کے بعد  ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مخلص اساتذہ رَٹنے کی روش کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ اس کے باوجود یہ روش عام ہے اور اس لئے عام ہے کہ مخلص اساتذہ کے طرز عمل کے برخلاف، ملک کا نظام ِ تعلیم اس کی بالواسطہ حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
 نئی تعلیمی پالیسی سے کتنے فوائد حاصل ہوسکیں گے یہ کہنا مشکل ہے۔ وبائی حالات نے اس پالیسی کے نفاذ کو پا بہ زنجیر کردیا ہے۔ جب تک تعلیمی ادارے کھل نہیں جاتے اور تعلیمی پالیسی پوری طرح نافذ نہیں ہوجاتی تب تک یہ کہنا مشکل ہے کہ اس سے کیا اور کتنے فائدے حاصل ہوئے تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ اس سے رٹنے کی روش پر روک لگ سکے گی۔ حکومت چاہتی ہے کہ ایسے نوجوان آگے بڑھ کرملک کی ترقی میں حصہ لیں جو تخلیقی ذہن کے حامل ہوں، جو سوال کرنے کو ترجیح دیتے ہوں اورمروجہ طریقوں سے الگ نئے طریقے ایجاد کرکے ملک کے ترقیاتی عمل کو تیز گامی عطا کریں مگر اس خواب کی تعبیر کیلئے تعلیمی محاذ پر جس قسم کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی ہے۔  n

school Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK