Inquilab Logo

یہ الیکشن اس لئے یاد رکھا جائیگا

Updated: May 11, 2023, 9:05 AM IST | Mumbai

وقت تیزی سے گزرتا ہے۔ کل تک ہم کرناٹک کی انتخابی سرگرمیوں پر گفتگو کررہے تھے اور ہر گفتگو میں کہا جا رہا تھا کہ ۱۰؍ مئی کو عوام کا جو فیصلہ الیکٹرانک مشینوں میں محفوظ ہوجائیگا وہی حتمی ہوگا، تو لیجئے پولنگ ہوگئی اور عوام کا فیصلہ محفوظ ہوگیا۔ اب اگر انتظار ہے تو صرف ۱۳؍ مئی کا جب عوام کا فیصلہ منظر عام پر ہو گا۔

Karnataka election
کرناٹک الیکشن

وقت تیزی سے گزرتا ہے۔ کل تک ہم کرناٹک کی انتخابی سرگرمیوں پر گفتگو کررہے تھے اور ہر گفتگو میں کہا جا رہا تھا کہ ۱۰؍ مئی کو عوام کا جو فیصلہ الیکٹرانک مشینوں میں محفوظ ہوجائیگا وہی حتمی ہوگا، تو لیجئے پولنگ ہوگئی اور عوام کا فیصلہ محفوظ ہوگیا۔ اب اگر انتظار ہے تو صرف ۱۳؍ مئی کا جب عوام کا فیصلہ منظر عام پر ہو گا۔ 
 رائے دہندگان کے فیصلے ہی کی بنیادپر ریاست ِ کرناٹک میں نئی حکومت تشکیل پائے گی خواہ وہ کانگریس کی ہو، جس کی اُمید زیادہ ہے، یا، بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہو۔ اس سے قطع نظر، کرناٹک کے  اِس الیکشن کو اُن چند باتوں کیلئے یاد رکھا جائے گا جو اِس دوران ہوئی ہیں۔ پہلی بات ہے الیکشن میں مذہب کا استعمال۔ ہرچند کہ یہ پہلا الیکشن نہیں ہے جس میں مذہب کو درمیان میں لایا گیا ہو مگر اس الیکشن میں بہت کھل کر اس کا استعمال کیا گیا حتیٰ کہ خود وزیر اعظم نے انتخابی ریلی میں ’’جے بجرنگ بلی‘‘ کے نعرے لگائے۔ الیکشن کمیشن کو اس کا سخت نوٹس لینا چاہئے یہ بات ذہن رکھتے ہوئے کہ نوٹس لینے کا مطلب نوٹس دے کر خاموش ہوجانا نہیں ہوتا۔
  یہ الیکشن اُن بیانات کیلئے بھی یاد رکھا جائیگا جن میں کبھی ملکارجن کھرگے نے مودی کو زہریلا سانپ کہا  اور کبھی مودی نے کانگریس کو مفروضہ ٹکڑے ٹکڑے گینگ سے جوڑ دیا۔ ہماری نظر میں ملکارجن کھرگے کا بیان غیر ضروری تھا جو اُن جیسے قابل، بزرگ اور تجربہ کارسیاستداں کے شایاں نہیں تھا۔ مودی کا بیان بھی اُن کے منصب سے میل نہیں کھاتا۔ جمہوریت میں تنقید ہونی چاہئے مگر تنقید کے معیار کا  ملحوظ رکھا جانا بھی ضروری ہے خواہ وہ حکمراں جماعت کے لیڈران ہوں یا اپوزیشن کے۔ 
 یہ الیکشن شدید تر اقتدار مخالف لہر (اینٹی اِن کم بینسی) کیلئے بھی یاد رکھا جائیگا جس میں محسوس ہوا کہ عوام مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی سے اس قدر پریشان تھے کہ الیکشن کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے تاکہ ووٹوں کی طاقت سے حکومت کی تبدیلی کو یقینی بنائیں۔ ریاست کی برسراقتدار جماعت (بی جے پی) کو عوام کی برہمی کا علم تھا اور یہی وجہ تھی کہ اس کے لیڈروں نے مقامی مسائل کو موضوع بحث بنایا ہی نہیں۔ پارٹی ہائی کمان نے مقامی لیڈروں کو بھی اہمیت نہیں دی بلکہ انتخابی مہم کو  مرکزی لیڈران ہی نے سرانجام دیا۔ انتخابات میں جیت کا راستہ بآسانی ہموار کرنے والی حکمراں جماعت کو اس  الیکشن میں خاصی مشقت کرنی پڑی اس کے باوجود یہ امکان کم ہے کہ پارٹی اپنی سابقہ کارکردگی کو دُہرا سکے۔
 مگر، یہ الیکشن سب سے زیادہ جس بات کیلئے یاد رکھا جائیگا وہ کانگریس کا جوش و خروش، منصوبہ بندی، دانشمندی اور   حددرجہ احتیاط ہے جس کے سبب پارٹی کسی ایک ریلی میں بھی موضوع سے نہیں ہٹی۔ نو ساڑھے نو سال میں یہ پہلا موقع ہے جب  اقتدار مخالف لہر کو بھنانے کی تیاری کے ساتھ کانگریس الیکشن لڑنے نہیں بلکہ جیتنے کیلئے میدان میں اُتری، اس نے خود کو ہر ممکن طریقے سے مجتمع، مرکوز اور یکسو‘ رکھا، جارحانہ تیور اپنائے اور رائے دہندگان کو اعتماد میں لینے کی کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کھرگے،  راہل، پرینکا، سدا رمیا اور ڈاکٹر ڈی کے شیو کمار مسلسل ڈٹے رہے۔ سونیا گاندھی بھی شریک ہوئیں۔ اب تک کانگریس ایک واماندہ، پریشاں حال، منصوبہ بندی سے عاری، وسائل سے محروم  اور لڑنے نیز جیتنے کی صلاحیت گنوا چکی پارٹی کے طور پر دیکھی جارہی تھی مگر اس نے کرناٹک میں خود کو از سرنو تلاش کیا۔ ممکن ہے یہ اس کے سفر میں کانٹے کا موڑ ( ٹرننگ پوائنٹ) ثابت ہو!         n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK