گزشتہ آٹھ نو سال میں انگریزی اصطلاح ’’ماسٹر اسٹروک‘‘ کافی استعمال کی گئی ہے۔ اس کا معنی ہے ایسا سوچا سمجھا اور مہارت سے اُٹھایا گیا قدم جو غیر معمولی کامیابی پر منتج ہو۔
EPAPER
Updated: October 03, 2023, 1:15 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
گزشتہ آٹھ نو سال میں انگریزی اصطلاح ’’ماسٹر اسٹروک‘‘ کافی استعمال کی گئی ہے۔ اس کا معنی ہے ایسا سوچا سمجھا اور مہارت سے اُٹھایا گیا قدم جو غیر معمولی کامیابی پر منتج ہو۔
گزشتہ آٹھ نو سال میں انگریزی اصطلاح ’’ماسٹر اسٹروک‘‘ کافی استعمال کی گئی ہے۔ اس کا معنی ہے ایسا سوچا سمجھا اور مہارت سے اُٹھایا گیا قدم جو غیر معمولی کامیابی پر منتج ہو۔ حکومت کا ہمنوا میڈیا، جسے گودی میڈیا کہا جاتا ہے، وزیر اعظم مودی کے متعدد اقدامات کو ماسٹر اسٹروک قرار دے چکا ہے مگر یہ پہلا موقع ہے جب گودی میڈیا بھی جزبز ہوگا۔ وہ بھلے ہی اس اقدام کو ماسٹر اسٹروک کہنے کی جرأت نہ کرے مگر اس کی مخالفت میں جارحانہ رُخ اختیار نہیں کر سکے گا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بہار کے وزیر اعلیٰ نے ہندوتوا کے اردگرد گھومنے والی سیاست کی بڑی لکیر کو، جو ۲۰۱۴ء میں کھینچ دی گئی تھی، چھوٹی ثابت کرنے کیلئے بہار میں طبقہ جاتی مردم شماری (کاسٹ سینسس) کا نہ صرف اعلان کیا تھا بلکہ راستے کی کئی رُکاوٹوں کے باوجود مردم شماری مکمل کروا دی۔ اس کے اجراء کیلئے گاندھی جی کے یوم ولادت کا انتخاب کیا گیا تھا۔ گزشتہ روز اس رپورٹ کا اجراء عمل میں آیا جس کے مطابق بہار میں پسماندہ اور غیر معمولی طور پر پسماندہ ذاتوں (پچھڑا اور اَتی پچھڑا) کی آبادی کا مجموعی فیصد کم و بیش ۶۳؍ فیصد ہے۔ اگر یہ آبادی اور مسلمانوں کی ۱۷؍ فیصد آبادی کو ایک ساتھ لایا جائے تو یہ آبادی کا ۸۰؍ فیصد ہوگا۔ یہ بہت بڑی طاقت ہے۔ اگر ان طبقات سے براہ ِ راست خطاب کیا گیا اور اُنہیں سمجھایا گیا کہ اتنی بڑی آبادی کے باوجود اقتدار، تعلیم اور ملازمتوں میں ان کی حصہ داری معمولی ہے تو یقیناً ان کے ذہنوں میں یہ سودا سما جائیگا کہ مرکز اور ریاست دونوں جگہ ایسی سیاسی جماعتوں کا اقتدار لازمی ہے جو اُن کے مفاد میں سوچیں اور ضروری پالیسیاں بنائیں ۔ان طبقات کو اعتماد میں لینے سے ہندوتوا سیاست کی کھینچی ہوئی بڑی لکیر بڑی نہیں رہ پائے گی۔ طبقاتی سیاست کی لکیر اس سے کہیں زیادہ بڑی اور مؤثر ہوگی جو بی جے پی کے سارے کھیل کو بگاڑ دے گی۔
اس کے نتیجے میں بی جے پی کو اپنی سیاسی حکمت عملی لازماً تبدیل کرنی پڑے گی۔ اس میں شک نہیں کہ بی جے پی نے طبقاتی مردم شماری سے انکار نہیں کیا ہے مگر اس کی بھرپور طریقے سے تائید بھی نہیں کی ہے کیونکہ اس کی سیاست طبقاتی شناخت ختم کرکے سب کو ہندوتوا کے دائرے میں لانے کی رہی ہے۔ پارٹی نے اس کا غیر معمولی فائدہ اُٹھایا ۲۰۱۴ء میں بھی اور ۲۰۱۹ء میں بھی۔
طبقاتی مردم شماری کا یہ کام لالو یادو کی حمایت و تائید کے بغیر ممکن نہیں تھا جن کی سیاست نے یادو اور مسلم طبقات کی ترجمانی میں کوئی کسر نہیں رکھی مگر ہندوتوا کی بڑی لکیر نے ہزار طرح کے دعوؤں اور وعدوں کے ذریعہ ۸۰؍ فیصد سے زائد عوام پر ایسا سحر پھونک دیا تھا کہ بہار کا بھی وہی حال ہوا جو ملک کی دیگر ریاستوں کا تھا۔ ہر جگہ کنول ہی کنول تھا مگر اَب جس طرح دیگر ریاستوں میں بھی طبقاتی مردم شماری کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے، بی جے پی کیلئے ہندوتوا کی بڑی لکیر کو قائم رکھ پانا آسان نہیں ہوگا۔ طبقاتی مردم شماری کا مطالبہ کانگریس بھی کررہی ہے جس کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۱ء میں جو مردم شماری یوپی اے کے دور میں کرائی گئی تھی مرکز اس کی رپورٹ کو افشا کرے۔ آئندہ مہینوں میں یہ مطالبہ مزید زور پکڑے گا۔ بہرکیف بہار نے سب پر سبقت حاصل کرلی۔ اُمید ہے کہ گودی میڈیا کی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ گزشتہ ہفتے عشرے کے دوران لالو اور نتیش کمار کی باہمی ملاقاتیں اتنی کیوں بڑھ گئی تھیں ۔