Inquilab Logo

چند لفظوں میں کوئی آگ چھپا دینے والا شاعر جاں نثار

Updated: February 18, 2024, 2:11 PM IST | Dr. Z. Ansari | Mumbai

۱۹۵۰ء کے شروع میں وہ بمبئی آئے۔ سال بھر میں رنگ سنولا گیا، شیروانی کے کالر ادھڑ گئے، کرتوں کی جیبیں نکل گئیں۔ صنعتی تہذیب کی غیرشاعرانہ، تیز حرکت اور ہمہ گیر بے نیازی کی برکتوں سے بھراپرا یہ شہر اُن کیلئے اور ان کی شاعری کیلئے سخت آزمائش ثابت ہوا۔

Jaan Nisar Akhtar: Birth: February 18, 1914. Death: 19th August 1976. Photo: INN
جاں نثار اختر: آمد: ۱۸؍فروری ۱۹۱۴ء ۔ رخصت: ۱۹؍اگست ۱۹۷۶ء۔ تصویر : آئی این این

جاں نثار اختر نے گوالیار میں آنکھ کھولی۔ ۱۴؍برس کی عمر میں وہ اپنے سخنور اور ذی علم باپ مضطر خیرآبادی کی سرپرستی سے محروم ہوگئے۔ باپ سٹی مجسٹریٹ اور سیشن  جج رہ چکے تھے ۔ بچے کھچے اثاثے میں دو پرانی کاریں اور ایک بڑی حویلی رہ گئی تھی۔ ایک سگی ماں تھیں اور ایک سگی بہن۔ ماں کے یہی اکلوتے بیٹے تھے۔ آسائش سب طرح کی، رکاوٹ کسی طرح کی نہیں۔ چشم نمائی کرنے والا کوئی نہیں۔ صورت شکل کے اچھے تھے۔ کتابی چہرہ، چوڑا ماتھا، گندمی رنگ، میانہ قد، لکھنے پڑھنے میں تیز ، طبیعت کے بھولے بھالے اور وارفتہ، باتوں میں نرمی اور سلیقہ، زلفوں میں بَل ، اعلیٰ خاندانوں میں رسائی، غزل گوئی اور غزل خوانی کا جو سروسامان، جو ماحول انہیں باپ اور بزرگوں سے ملا اِس کی بدولت گوالیار کے دورانِ قیام میں (ہائی اسکول پاس کرنے تک) وہ غزل کے اساتذہ کا کلام ازبر کرچکے تھے۔ تغزل اپنے لچکیلے ناز پروردہ وجود میں بسا چکے تھے۔ 
 علی گڑھ یونیورسٹی وہ ایسے وقت پہنچے جب وہاں نوجوان باغیوں اور منکروں کی ایک نسل آئنسٹائن کے سائنسی نظریات، مارکس کے فلسفے، انقلاب روس کی گونج، اقبالؔ کے آہنگ، جوشؔ کے طنطنے، آزادیٔ ہند کے ولولے، جواہرلال نہرو کی تقریریں ، انگریزی کے آزاد پسند رومانوی شعراء کے کلام اور روسی ادب کی حقیقت پسندی کے ملے جلے منظر سے آنکھیں سینک رہی تھی۔ ۱۹۴۰ء کے دس برس  انہوں نے یہیں گزارے اور یہیں سے زادِ سفر لیا۔
 یونیورسٹی کے آخری کورس کی کتابیں، سیاسی اور ادبی مسائل پر دانشورانہ بحثیں، مارکسی اینگلس کا فلسفہ، خیرآباد (بزرگوں کا وطن) کی شاندار علمی روایات، ہڑتالیں، انجمنیں، اور پھر آخری امتحان کی تیاری اور تدبیریں بھی اُس شامیانے کی طنابیں نہ کاٹ سکیں جس شامیانے میں انہوں نے یہ اندرسبھا سجا رکھی تھی۔ 
 غزل اور غنائی آب و رنگ کےشعر اُن کی افتاد طبع کے عین مطابق تھے کہ اتنے میں ترقی پسند خیالات کی  ادبی تحریک نے زور پکڑا۔ اخباروں ، رسالوں، یہاں تک کہ مشاعروں میں بھی موضوعاتی نظمیں پسند کی جانے لگیں۔ دوسری جنگ عظیم چھڑ جانے سے پہلے ہندوستان کا سیاسی پارہ کافی چڑھ گیا ۔ جن لوگوں نے ۴۰۔۱۹۳۰ء (چوتھی دہائی) کا ہنگامہ خیز دور نہیں دیکھا وہ یہ نہیں جانتےکہ اُس وقت کے بہترین طالب علم ذہین ، وسیع النظر اور نموایاں نوجوان نصاب کی کتابوں کے باہر زندگی بسر کرتے تھے۔ انہیں ڈگریوں اور کریئر کے بجائے ملک کی آزادی اور انقلاب کی دھن رہتی تھی۔ اسپین کی خانہ جنگی، یورپ میں بڑھتے ہوئے فاشزم کی تیاریوں ، سوشلزم کی کامیابیاں اُن کے خون کو حرارت اور حوصلوں کو ایک سمت عطا کرتی تھیں۔ اسی ماحول میں جاں نثار اختر کا سیاسی ، سماجی اور فنی شعور پلا بڑھا۔ مٹھاس میں ہلکی سی ترشی بھی  شامل ہوگئی۔  نئے خیالات اور برہمی کے موڈ کو موضوعاتی  اور مسائلی ، تاثراتی یا تبلیغی نظموں میں ہی کھلنے کا موقع مل سکتا تھا ، سو انہوںنے اپنے دور کے مزاج کے مطابق کئی ایسی نظمیں کہیں جن میں انقلاب کے رومانوی تصور اور رومان کے انقلابی آہنگ کی پٹ ملتی ہے۔ کچھ تو قدر کی دین، کچھ ماحول کا عطیہ کہ الفاظ پر اُنہیں شروع سے ایسی قدرت، بیان کی ایسی بے ساختگی میسر تھی جو اختر کے ہم عصروں میں شاید ہی کسی کو نصیب ہوئی ہو۔ مگر معاملہ صرف قدرت ِ کلام پر تمام نہیں ہوجاتا ۔ عالم النفس و  آفاق  کے مسائل، جتنی کچھ جانکاری ہمارے بس میں  ہو، ایسی چیز نہیں کہ شاعر فکر و نظر کی بھاری سلیں سینے پر رکھے بغیر ، کراہے بغیر، گہری خراشیں تن من پر لئے بغیر انہیں مخصوص ترنم کے سانچے میں اتارے۔ سہولت بنے بنائے سانچوں کے اندر خود اترآنے میں ہے۔ جاں نثار اختر نے سہولت کی راہ اختیار کی۔
۱۹۴۰ء میں یہ نازپروردہ شاعر اردو ادب پر ڈاکٹریٹ کا تھیسس ناتمام چھوڑ کر گوالیار واپس آیا اور وکٹوریہ کالج میں لیکچرر ہوگیا۔ زندگی ایک مقررہ بے خطر راہ پر اور شاعری پرانی یادوں اور نئی محبتوں اور رنگینیوں کے سہارے آہستہ  خرام چل نکلتی ہے۔ دوستوں میں حلقے میں ہی (مجازؔ کی بہن) صفیہؔ سے ان کی شادی ہوگئی۔ بیوی علی گڑھ یونیورسٹی میں ملازم تھیں۔ گوالیار کے کالج میں ، گرہستی کی زندگی کا آب و نمک بھی میسر آیا اور وقت ناوقت کی چاشنی بھی۔ بیوی بھی ملی تو نازبرداری کرنے والی۔ شاعری کی حیثیت سے اُن کی شہرت اور ادب کے استاد کی حیثیت سے طلبہ میں ان کی مقبولیت بڑھتی جارہی تھی۔ پرانی چال کے شاعر اُن کی قدرت ِ کلام اور شیریں بیانی کے مداح تھے تو نئی نسل کے ہنرمند انہیں اپنے قبیلے کا آدمی شمار کرتے تھے۔ مرنجاں مرنج طبیعت، سادگی، بے پروائی اور تن آسانی نے انہیں ہر ایک حلقے میں یکساں پزیرائی بخشی۔ وہ خود بھی اس صورت ِ حال سے نباہ کر بیٹھے اور اپنے سماجی شعور کو انہوں نے سماجی غنائیت کے بڑے پیمانے میں انڈیل لیا۔

یہ بھی پڑھئے: حسرتؔ موہانی : اپنا سا شوق اوروں میں لائیں کہاں سے ہم

 نئے رجحانات کی تیزی و تلخی نے اگر کچھ کیا تو یہ آتش سیال کو دوآتشہ کردیا اور وہ اس ذوق میں پختہ تر ہوگئے کہ مخالف یا ناگوار حالات  میں لڑتے نہیں، مڑ جاتے ہیں، ٹوٹتے نہیں لچک جاتے ہیں اور لمحۂ فرصت کے انتظار میں نہ منہ بناتے ہیں نہ اور اوروں کا منہ چڑاتے ہیں بلکہ اندر کا قرار و سکون  برقرار رکھتے ہیں اور اپنی ڈگر پر سر جھکائے چلے جاتے ہیں۔ یہی ان کے شعر کی مانوس فضا ہے۔
یہاں ایک غور طلب نکتہ ہمیں ملتا ہے۔ تاریخ اور ان کا کام دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کئی نظمیں، کئی شاعرانہ ترکیبیں، مصرعے اور قطعے ایسے ہیں جو اخترؔ کے کلام سے ہوکر ہم عصرشعراء کی زبان تک پہنچے ہیں، مثلاً مجاز کی نظم ’’آوارہ‘‘ جب مشہور ہوئی اُس سے کئی سال پہلے ۱۹۳۸ء میں اختر ؔ کی نظم ’’بیزاری‘‘ میں محفوظ تھی۔ فیضؔ کی وہ غزل ’’تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے‘‘ کم و بیش دس سال پیشتر ’’بار گزری ہے‘‘ کی ردیف میں اخترؔ کے ہاں موجود ہے، جذبیؔ اور سردار جعفری کے ہاں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ عزم، بے زاری، تلخ نوائی، اداس شام، تجربہ، مراجعت، زندگی ، مراحل، غزلوں اور قطعوں کے کئی مصرعے جوں کے توں یا کسی تبدیلی کے ساتھ ہمیں اُن کے ہم عصروں کے ہاں مل جاتے ہیں اور کئی سال کے وقفے سے ملتے ہیں۔ وہاں اُن کا اندز تیکھا اور چوکھا ہوگیا ہے۔ وہ اپنی شانِ کج کلاہی کی بدولت خود بھی پہچانے جاتے ہیں اور شاعری کی بھی پہچان بتا جاتے ہیں۔
 ۱۹۴۷ء افراتفری اور خانہ خرابی کا زمانہ تھا۔ گوالیار کی حالت بگڑی تو جاں نثار اختر بھی سالہاسال کا جماؤ چھوڑ کر نزدیک کی محفوظ ریاست بھوپال چلے  آئے۔ یہاں کے گورنمنٹ حمیدیہؔ کالج میں شعبۂ اردو کے صدر ہوگئے۔ ہمدم و دم ساز بیوی بھی چلی آئیں۔ انہیں بھی یہیں ملازمت مل گئی۔  پہلی بار انہیں صحیح معنوں میں خانہ داری یا گھرگرہستی کی راحتوں کا بھرپور لطف ملا۔ یہاں ان کے قدران بھی زیادہ تھے ۔ ادب کی ترقی پسند تحریک کا بھی جھنڈا اونچا تھا ۔ وہ اس جھنڈے پر چڑھے نہیں، اعلانہ اُس کے سائے میں آگئے :
کیا جنتا کا ، کیا جیون کا ایسے میں اپمان کریں
آؤ کھلے بندوں اب جانبداری کا اعلان کریں
(ترقی پسند مصنفین کانفرنس کے نام پیغام۔ ۱۹۴۹ء)
مگر چونکہ ادبی حیثیت اوروں سے زیادہ تھی، ’’زلف و رخسار‘‘ کے استعاروں میں چھپ نہ سکی، ابھی تین سال آسائش کے نہ گزرے ہوں گے کہ جن جن پر گہری سرخ دھاری ذرا زیادہ گہری نظر آئی تھی قید و بند کی راہ پر آگے پیچھے روانہ کئے جانے لگے ۔ ایک تو حکومت ہند اور کمیونسٹ تحریک کی براہ راست ٹکر ، وہ بھی ایک دیسی ریاست میں۔ جاں نثار اختر گرفتاری کی صبح ہونےسے پہلے بھوپال چھوڑ کر نکل گئے۔ وہ بہتوں کی طرح پاکستان بھی جاسکتے تھے لیکن ادھر نہیں گئے، بمبئی چلے آئے۔ بمبئی جہاں کوئی کالج تو ان کا روادار نہ ہوتا البتہ ہم سخن دوستوں کے وسیع حلقے اور شہر کی غریب  نوازی میں امن پسند شاعر کی پناہ گاہ بننے کا قرینہ موجود تھا۔
۱۹۵۰ء کے شروع میں وہ بمبئی آئے ہیں۔ سال بھر میں رنگ سنولا گیا، شیروانی کے کالر ادھڑ گئے، کرتوں کی جیبیں نکل گئیں۔ صنعتی تہذیب کی غیرشاعرانہ، تیز حرکت اور ہمہ گیر بے نیازی کی برکتوں سے بھراپرا یہ شہر اُن کے لئے اور ان کی شاعری کے لئے سخت آزمائش ثابت ہوا۔
مجھے وہ دن یاد ہیں جب یہ خوش لباس اور خوش وضع، کم سخن شاعر جیکٹ تکیوں اور کھٹمل رینگتی دیواروں کے درمیان استاد خلیلؔ کے خانقاہی کمرہ پر اس آسرے میں شب و روز گزار رہا تھا کہ ایک نہ ایک دن کسی فلم اسٹوڈیو کا پھاٹک چرچرا کے کھلے گا اور زندگی بھی پچھلی محبوباؤں کی طرح غزل کی ڈھلی ڈھلائی زبان کی طرح اُس کی نازبرداری میں لگ جائے گی، سب دلدّر  دور ہو جائیں گے اور بال بچے آن ملیں گے۔ وہ دن کبھی نہ آیا۔ غمگسار صفیہؔ دلاسا دیتے دیتے دنیا سے سدھار گئی۔ 
(فن اور شخصیت کے ’جاں نثار اختر‘ نمبر۔۱۹۷۶ء میں شامل مضمون کا ایک باب)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK