مراٹھی زبان سنسکرت کے بطن سے پیدا ہوئی ہے اس لحاظ سے مراٹھی زبان کا بھی ہندوستانی لسانیت میں شمار ہوتا ہے۔
EPAPER
Updated: February 19, 2024, 1:15 PM IST | Anjum Abbasi
مراٹھی زبان سنسکرت کے بطن سے پیدا ہوئی ہے اس لحاظ سے مراٹھی زبان کا بھی ہندوستانی لسانیت میں شمار ہوتا ہے۔
مراٹھی زبان سنسکرت کے بطن سے پیدا ہوئی ہے اس لحاظ سے مراٹھی زبان کا بھی ہندوستانی لسانیت میں شمار ہوتا ہے۔ سنسکرت سے پیدا ہونے والی زبانیں جس طرح اپنے اپنے علاقے میں محدود ہو کر اپنی انفرادیت اور اپنے روپ کو اُجاگر کرتی رہیں مراٹھی بھی مہاراشٹر اور کرناٹک کی آغوش میں آکر اپنی منزلیں طے کرتی رہی اور مہاراشٹر کی تہذیبی رنگارنگیوں کو صفحہ قرطاس پر پیش کرتی رہی۔ مہاراشٹرکا علاقہ صدیوں سے مشترکہ تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ یہاں مراٹھی کے بعد اُردواور گجراتی بولنے والے لوگوں کی تہذیبیں بھی پروان چڑھیں۔ جب مغلوں کی حکومت کا اثر و رسوخ دکن کی ریاستوں پر بڑھنے لگا اور اس کے بعد جب دکن کی مسلم ریاستوں کے نقّارے فضائے عالم میں ایک عرصہ تک گونجنے لگے تو اس کے اثرات مہاراشٹر کی تہذیب اور زبان پر ہونا لازمی تھے۔ نتیجتاً مراٹھی زبان میں اردو،فارسی، اور عربی الفاظ شامل ہوتے گئے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ مراٹھی زبان ایک ایسا قلعہ ثابت رہی ہے جس میں بیرونی اثرات و الفاظ بہت کم داخل ہوسکے ہیں۔ اپنی انفرادیت کو بر قرار رکھنے کے لئے شروع ہی سے یہ شعوری اور لا شعوری کوشش جاری رہی ہے اور اردو کی طرح مراٹھی نے بھی کبھی بھی اپنا دامن بھرنے کے لئے چمن چمن کے پھول نہیں چُنے، بلکہ اپنی ہی کیا ریوں کے پھولوں سے اپنے گلدان سجائے ہیں۔ مگر پھر بھی حالات کا ریلا کچھ ایسا تیز تھا کہ یہ شعوری اور لا شعوری کو ششیں بھی اردو کے الفاظ کو مراٹھی کے ادب میں داخل ہونے سے نہ بچا سکیں۔ یہاں ایک بات وضاحت ضروری ہے کہ جب ہم اُردو االفاظ کا ذکر کرتے ہیں تو ان میں سے کوئی سوفیصد الفاظ اردو کے نہیں ہوتے بلکہ عربی اور فارسی کے بھی ہوتے ہیں مگر عوامی سطح پر انھیں اردو کے ہی لیبل سے پیش کیا جاتا ہے۔اردو الفاظ کی شمولیت سے مراٹھی ادب میں کچھ تبدیلیاں ضرور ہوئیں۔ کچھ تو الفاظ کا ذخیرہ بڑھا اور کہیں لب و لہجے میں سلاست وردانی پیدا ہوگئی۔ مثال کے طور پر مراٹھی کا ایک جملہ لیجئے۔ اس جملے میں اُردو کا لفظ ’پیدا کرنا‘ کے استعمال سے دیکھئے کس قدرروانی پیدا ہوگئی ہے۔ ’’تیانی پُشکل وستوں پیدا کیلیا۔‘‘(اُس نے بہت سی چیزیں پیدا کیں۔)غرض یہ اثرات مراٹھی کے مضبوط حصار کے باوجود بھی مراٹھی ادب میں دَرآئے۔ ہم یہاں ان الفاظ کا ایک اجمالی جائزہ پیش کر رہے ہیں جن کے استعمال سے مراٹھی کی اثر آفرینی میں اضافہ ہوا ہے:
(الف) مراٹھی میں استعمال ہونے والے وہ الفاظ جو اپنے اصل روپ اور معنی کے اعتبار سے جوں کے توں استعمال ہوتے ہیں: (۱) دولت (۲) پردہ (۳) آسانی (۴) جاری کرنا (۵) درمیان (۶) بے حد (۷) شرمندہ (۸) بے ہوش (۹) مشکل (۱۰)امیر (۱۱) شکایت (۱۲) حال (۱۳) بندوبست (۱۴) گواہ (۱۵) گواہی۔
(ب) ذیل کے الفاظ لب و لہجے کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ مراٹھی میں استعما ل کئے جاتے ہیں۔ ان الفاظ میں ـ’ق‘ کا تلفظ’ ک‘ ہوتا ہے۔’خ‘ کا تلفظ’ `کھ‘ کی طرح ادا کیا جاتا ہے۔ اور ’غ‘کا تلفظ ’گ ‘کی طرح ہوتا ہے۔ مگر معانی کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔(۱) حقیقت (۲) خوراک (۳) شوقین (۴) باقی (۵) کم بخت (۶) خوبصورت (۷) خوشامد (۸) خوش (۹) خوشی (۱۰) ناخوشی (۱۱) بر خاست (۱۲) غریب(۱۳) غا لیچہ۔
(ج) ذیل کے الفاظ کی ’ض‘ یا’ز‘ قدرے’ `ج‘میں بدل جاتی ہے :(۱) وزیر (۲) مزہ (۳) راضی (۴) ضرورت (۵) ضروری (۶) بے زبان (۷) زکات ناکہ (۸) زبردست۔البتہ نازک کا تلفظ بہت حد تک اردو تلفظ جیسا رہتا ہے۔
(د) اردو کے کچھ الفاظ مراٹھی میں بھی ایک ہی مطلب کے حامل ہوتے ہیں مگر ان کا املا مراٹھی میں کچھ الگ سا ہوتا ہے مثلاً آبرو کو مراٹھی میں آبرُ یا آبھروْ لکھا جاتا ہے۔ انعام اس لفظ کا مفہوم مراٹھی میں بھی وہی ہے جو اُردو میں لیا جاتا ہے البتہ مراٹھی میں اسے ’انام لکھا جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل الفاظ اسی قبیل کے ہیں: نقشہ۔ نکاشہ ، وارث۔وارس، شاعر۔ شاہر، نصیب۔نشیب، بے چارہ۔بِچارا، تفصیل۔ تپشیل، زخم۔زخَْم (اس لفظ میں `زکی جگہ ج کی آواز سے نکالی جاتی ہے۔) باغیچہ۔بغیچہ، دانہ۔دانا، ظُلم۔ظُلوُم یا جُلوُم، پسند۔ پسنت ،نا پسند۔نا پسنت ،فرق۔ پھرک۔ ان الفاظ کے علاوہ مراٹھی میں مستعمل اردو کے کچھ الفاظ کو بالکل غلط لکھا اور بولا جاتا ہے۔ مثلاً مراٹھی میں مستعمل ’کتاب ‘اس اردو لفظ کا مطلب بڑا مضحکہ خیز ہے۔ یہ لفظ خطاب کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ ہر چندکہ مراٹھی ادب کے دانشوروں کی اردو شناسی کے بعد اس قسم کی غلطیاں درست کرنے کی کوششیں ہوئی ہیںمگر ایک طویل عرصے سے مستعمل الفاظ کی ’شُدّھی‘نہ ہو سکی۔’ کتاب ‘(یعنی سرکار کی طرف سے دیا جانے والا نام) کی طرح کچھ اور الفاظ بھی ہیں۔ ہم حیات کا مفہوم زندگی سے لیتے ہیں مگر مراٹھی میں یہ لفط زندہ کی لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ تو مانس حیات آہے(مطلب: وہ آدمی زندہ ہے۔) مراٹھی میں زندگی کے لئے’ حیاتی‘ لفظ بولا جاتا ہے۔
یہ تور ہے وہ الفاظ جو مراٹھی میں قدر ے مختلف طور پر لکھے جاتے ہیں مگر اردو کے کچھ الفاظ ایسے ہیں جو صوتی یا ہیئتی روپ تو نہیں بد لتے مگر مراٹھی ادب میںاپنی شعبد ہ بازی سے باز نہیں آتے۔ مثلاً لفظ شکست کو لیجئے۔ یہ جب مراٹھی ادب میں پائوںرکھتا ہے تو اپنی ہیئت یا صوتی شکل تو بدلتا نہیں مگر اپنے کردار کو یکسر بدل دیتا ہے اور ’’کوئی کسر نہ رکھنا یا بے انتہا کو شش کرنا‘‘کا مفہوم ادا کرتا ہے مثلاً ’’تیا ویرانے دیشا لا واچو ینیاچی شکست کیلی۔‘‘یعنی اس جانباز نے دیش کو بچانے کے لئے انتہائی کوشش کی۔اس غلط مفہوم کے لئے کون ذمہ دار ہے، لسانی محققین اب تک یہ جاننے سے قاصر ہیںلیکن اس قسم کے الفاظ کی جادو گری کچھ ایسی دل پذیر ہے کہ اس سے انحراف کا جذبہ پروان نہ چڑھ سکا۔
’اولاد اور ولی‘ یہ دونوں الفاظ اردو میں شائستہ مفہوم کے حامل ہیں مگر مراٹھی میں استعمال ہونے والا لفظ اولادحقارت کے اظہار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جب کہ `ولی بدمعاش یا رذیل کا مفہوم پیش کرتا ہے یا در ہے ولی کو مراٹھی میں وللی لکھا جاتا ہے۔ `’دماغ‘ اس لفظ کا مفہوم بالکل عام فہم ہے لیکن جب یہی لفظ مراٹھی میں استعمال کیا جاتا ہے تو وہ ’دماکھ‘ بن جاتا ہے اور مفہوم کے اعتبار سے بھی اس میں فرق آ جاتا ہے۔ مراٹھی میں اس کا مطلب شان جتانا یا رعب جتانا سے لیا جاتا ہے۔ مثلاً ``تیامانسانے موٹھیا دماکھانے اُتّر دیلے۔‘‘ _کبھی کبھی اس لفظ کا مطلب گھمنڈ اور غرور سے بھی لیا جاتا ہے۔ اب ذرا پیدا کرنےکا مراٹھی روپ دیکھیے... پیدا کرنا لفظ کا مطلب مراٹھی میں جنم دینے کے بجائے کچھ بھی کر کے حاصل کرنا سے لیا جاتا ہے۔ ’’آمدنی ‘‘یہ اردو لفظ مراٹھی میں اپنی ہیئت بھی بدل دیتا ہے اور مطلب بھی۔ مراٹھی میں اسے’ آمدنی‘ لکھا جاتا ہے اور دورحکومت سے مرادلی جاتی ہے۔ مثلاً انگریجا نچیا آمدانیت ظُلوم جاست ہوتا۔ یعنی انگریزوں کے دَور حکومت میں ظلم زیادہ تھا۔
اب یہاں ایک ایسا لفظ پیش کیا جا رہا ہے جس کے متعلق مشکل سے باور کیا جا سکتا ہے کہ مراٹھی میں بھی کہیں دکھائی دے سکتا ہے اور وہ لفظ ہے ’اِرسال‘۔ اردو میں ارسال کرنا کا مطلب ہے روانہ کرنا یا بھیجنا مگر مراٹھی میں اس سے رذالت، _مذاق ،مضحکہ یا تحقیر مراد لی جاتی ہے۔ اکژمحققین کا یہ خیال ہے کہ یہ لفظ اردو لفظ کا ہم شکل ضرور ہے مگر اردو اثرات کا نتیجہ نہیں ہے۔ بہر حال جو بھی ہو’ ارسال‘ جیسے بھاری بھر کم لفظ کو مراٹھی میں دخل حاصل ہے البتہ مراٹھی میں اس کا مطلب بالکل مختلف ہے۔ مثلاً ’’تو ارسال پنے ہنسلا‘‘یعنی وہ تمسخر سے مُسکرایا۔ ’حال‘اس اردو لفظ کا مراٹھی میں بہت ہی بُرا حال ہے۔ یہ عام طور پر بُری حالت یا خستگیٔ روزگار کے اظہار کے لئے مراٹھی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے نرملاموٹھیا حالات مدھے جگت آہے (نر ملا بُرے حال میں زندگی گزاررہی ہے )۔حال کا دوسرا مفہوم تکلیف واذیت ہے۔ حال سے بننے والے الفاظ ’بحال اور ’خوش حال‘بھی مراٹھی میں ہر آن پنیترے بدلتے رہتے ہیں۔ ’بحال‘ کوکبھی تو بر قراررکھے جانے یابخش دینے کے معنی میں لایا جاتا ہے تو کبھی زیادہ مسرور کے مفہوم میں۔’خوشحالی‘ کے بھی مراٹھی میں حسب مو قع مفہوم بدلتے رہتے ہیں۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب صحیح سلامت سے لیا جاتا ہے مگر جب یہ لفظ اپنی شعبدہ بازی پر اُترتا ہے تو کہیں اجازت کا لبا دہ اوڑھ لیتا ہے۔’’تمھی خوشحال ملا پکڑا۔‘‘تم مجھے بخوشی پکڑو۔یا تم میں استطاعت ہو تو مجھے پکڑو۔ )
غرض اردو الفاظ کے یہ بہروپ اور کرتب مراٹھی ادب میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں کیونکہ اردو کے سوا کسی بھی زبان کے الفاظ مراٹھی میں اس قدر مختلف رنگ نہیں بکھیرتے۔ ان رنگوںکی قوس قزح مراٹھی ادب میں صرف ساون کے رُت میں ہی دکھائی نہیں دیتی بلکہ زندگی کے ہر موسم میں اپنا رنگ بکھیرتی ہے اور جب تک مہاراشٹر کی گنگا جمنی تہذیب زندہ ہے یہ رنگوں کی دھنک بکھرتی رہے گی۔