Inquilab Logo

اَدب کی افادیت کی کئی جہتیں ہیں

Updated: April 28, 2024, 3:19 PM IST | Dr. Karimuddin Ahmed | Mumbai

ادب عالیہ انسانوں کو ایک بہتر زندگی کا خواب دکھاتا ہے ، سخت ناامیدی کی حالت میں بھی انسانوں کو مایوس نہیں ہونے دیتا، ان میں نئی ہمت، نیا حوصلہ اور نیا عزم پیدا کرتا ہے۔

Literature is also a sign of a better life for human beings and also depicts it literally. Photo: INN
ادب انسانوں کی بہتر زندگی کا نقیب بھی ہے اور اس کی لفظی تصویرکشی بھی کرتا ہے۔ تصویر : آئی این این

کبھی کبھی یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آج کے دَور میں ادب کی افادیت کیا ہے؟ غالباً اس نقطۂ نظر سے کہ موجودہ دور مصروفیت کا دَور ہے یا سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے اور سوال اٹھانے والوں کے ذہن میں یہ بات بھی ہوتی ہے کہ ادب کوئی بیکاری کا مشغلہ ہے۔ ادب بے کاری کا مشغلہ نہیں بلکہ انسان کے کسی چیز سے لطف اندوز ہونے کی حس کو تسکین پہنچاتا ہے۔ یہ کائنات اور اس کا حسن لطف اندوز ہونے کے لئے ہی تو ہے اور کسی چیز سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت سب سے زیادہ انسان میں ہے۔ اس کے لئے فرصت بھی چاہئے اور موجودہ دَور اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی سے انسانوں کی زندگی کو آسان اور بہتر بنارہا ہے اور مصروف ہونے کے باوجود انسان کی لطف اندوزی کی حس کی تسکین کے لئے وقت بھی مہیا کررہا ہے۔ پہلے اپنی مادی ضروریات پوری کرنے کے لئے زیادہ وقت صرف کرنا پڑتا تھا، اب مشینوں نے اس کا کام آسان بنا دیا ہے۔ مادی تسکین کے ساتھ ساتھ اب روحانی تسکین کے لئے پہلے سے زیادہ ادب اور آرٹ کی ضرورت ہے۔ مستقبل ہمیں یہ امید دلاتا ہے کہ محنت کشوں کے اوقات ِکار میں کمی ہوگی اور انہیں اپنی روحانی تسکین کے لئے ادب کی زیادہ ضرورت ہوگی۔ 
آج کے دور میں جب کہ انسان تسخیر فطرت کے عمل میں کافی آگے بڑھ گیا ہے، ادب کا کام انسانی دکھوں کی نشاندہی اور اس کا مداوا بھی ہے۔ ادب یہ مداوا مرہم پٹی کے ذریعے نہیں بلکہ اسے خوش کرکے کرتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں آٹھویں نویں میں پڑھتا تھا، اس وقت دیوان غالب میں یہ شعر پڑھا:
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں 
جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر
تو مجھے بڑا مزہ آیا۔ اُس وقت مَیں جن مادی تکالیف کا شکار تھا اس کا کوئی علاج میرے پاس نہ تھا اور نہ میرے خاندان والوں کے پاس تھا مگر غالبؔ کے اس شعر نے مجھے جو تسکین پہنچائی اور جو سکون بخشا وہ مجھے آج تک یاد ہے۔ غالبؔ نے میرے روٹی کپڑے کا مسئلہ حل نہیں کیا مگر مجھے ذہنی طور پر اس سطح پر لاکھڑا کیا جہاں تکلیف تکلیف نہیں رہتی۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ادب انسان کو ایسا ہی سکون پہنچاتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اُس رات وہ ضرورت سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آرہے تھے

انوریؔ نے کہا تھا کہ آسمان سے جو بھی مصیبت آتی ہے وہ انوریؔ کا گھر تلاش کرتی ہوئی آتی ہے۔ مصیبتیں اور بلائیں چاہے ارضی ہوں یا سماوی یا انسان کی اپنی پیدا کی ہوئی، ان سب کا مقابلہ انسانوں ہی کو کرنا پڑتا ہے اور انسان نے ان مصیبتوں پر قابو پا کر جینا سیکھ لیا ہے لیکن ان مصیبتوں کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اسے ادب ہی عطا کرتا ہے۔ ادب انسان میں وہ ہمت اور شعور پیدا کرتا ہے کہ وہ ہر مصیبت پر قابو پالیتا ہے۔ ادیب کی سوچ ذاتی ہے مگر اس کی عطا کی ہوئی دولت آفاقی۔ تو ادب کا ایک کام انسان کی رہنمائی کرنا اور اس کے دکھوں کا علاج کرنا ٹھہرا۔ علاج ان معنوں میں نہیں جن معنوں میں حکیم یا ڈاکٹر کرتے ہیں بلکہ ان معنوں میں کہ اسے دکھوں سے لڑنے کی جرأت عطا کرے۔ ادب انسان میں دکھوں سے لڑنے کی ہمت پیدا کرتا ہے اور دکھ دکھ نہیں رہتے بلکہ دوا بن جاتے ہیں۔ 
 اسی لئے تو غالبؔ نے کہا تھا :
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا بن جانا
 غالبؔ ہو یا ہیوگوؔ، سب کا کام ایک ہے۔ سوسائٹی کے دکھ ہوں یا ذات کے دکھ، سب کا تذکرہ اس انداز میں کیا جائے کہ ان کی حقیقت آفاقی ہوجائے اور پڑھنے والے میں پست ہمتی نہ پیدا ہو بلکہ اس کے حوصلے اور ہمت کو بلند کیا جائے۔ وہ ان دکھوں سے لطف اندوز بھی ہو اور اس کا علاج بھی سوچے۔ ایک طرح سے یہ نیکی اور بدی کی جنگ معلوم ہوتی ہے اور ادب کے پڑھنے والے اس جنگ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ جنگ ادیب کے اپنے و جود میں بھی جاری رہتی ہے اور وہ اسے خارج میں بھی دیکھتا ہے۔ ایسی ہی جنگوں کی منظرکشی ادب عالیہ کو جنم دیتی ہے۔ ادیب کے اندر کی جنگ کو ہم اکثر داخلیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیا ہوتی ہے یہ جنگ؟ اور فنکار کس طرح اس سے نبردآزما ہوتا ہے؟ میرؔ نے کہا تھا:
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ ہوگیا ہے
کیا ہوتا ہے یہ دل کا جانا؟ کیا ہوتا ہے یہ سانحہ؟ ایک ایسی واردات جس کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں پھر بھی اس کے اظہار کے لئے الفاظ ہی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ عشق اور محبت ایسی کیفیت ہے کہ دو چاہنے والی شخصیتیں بھی ایک دوسرے تک اپنے احساس نہیں پہنچا سکتیں اسی لئے تو سارتر نے کہا تھا کہ کامل محبت ناممکنات میں سے ہے اس لئے کہ دوشخصیتیں کبھی ایک نہیں بن سکتیں، ہاں اس کی آرزو میں ان بن ضرور ہوتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: الیکشن لڑایا

ادب کا کام سائنسداں کے کام سے ذرا مختلف ہے۔ دونوں ہی انسانی معاشرے کو خوش و خرم رکھنے کا خواب دیکھتے ہیں لیکن دونوں کے کام کی نوعیت مختلف ہے۔ سائنسداں کا کام نظری بھی ہے اور عملی بھی۔ اس کے نظریات لیباریٹری کے تجربات عمل سے گزرتے ہیں۔ اس دوران ان میں ترمیم بھی ہوتی ہے، پھر کئی سائنسداں مل کر ایک تجربہ کرسکتے ہیں، پھر مختلف ملکوں میں ایک ہی قسم کا تجربہ کیا جاسکتا ہے اس لئے کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لئے ان کا آپس میں ملنا اور بحث و مباحثہ کرنا ضروری ہے۔ 
لیکن ادیب کا کام اس کے دماغ کے کارخانے میں پرورش پاتا ہے اس پر اس کے اپنے زمانے کی سوسائٹی یا ماحول کا بالواسطہ یا بلاواسطہ عمل تو ہوسکتا ہے لیکن اختراع اس کے اپنے دماغ کی ہوتی ہے۔ اس کی زبان بھی اپنی ہوتی ہے اور تجربات بھی اپنے۔ اسی لئے کئی ادیب مل کر کوئی ادبی تخلیق نہیں کرسکتے، یا یوں سمجھئے کہ کئی شاعر مل کر کوئی ایک غزل مرتب نہیں کرسکتے۔ مراد یہ ہے کہ ادب کا کام اپنی نوعیت کے لحاظ سے سائنس کے کام سے مختلف ہے۔ ادیب اور فنکار کو اپنی اس بھاری ذمہ داری کا احساس رہتا ہے اور یہی احساس اسے خوب سے خوب تر کی تلاش میں منہمک رکھتا ہے۔ 
ادب کا پیغام محبت ہے۔ شریف انسانی جذبات اور بلند انسانی خیالات کی ترجمانی۔ لائی جائی فس کا خیال ہے کہ اعلیٰ خیالات اور ارفع زبان کے بغیر اچھا ادب تخلیق ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اعلیٰ خیالات اور ارفع زبان انسانوں کو ایک د وسرے سے قریب لاتی ہے اور انہیں ایک لڑی میں پروتی ہے اس لئے اعلیٰ ادب صرف اس زبان کے جاننے والوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ ساری انسانیت کی میراث بن جاتا ہے۔ اس کا پیغام ہر اس آدمی کیلئے ہے جو اسے سمجھے اور اس سے لطف اندوز ہو، چاہے وہ دنیا کے کسی حصے اور کسی زمانے میں ہو۔ یہیں فن پارہ زمان اور مکان کی سرحدوں کو لانگ جاتا ہے۔ یہی انسانیت کا پیغام ہے اور یہی ادب کا پیغام۔ 
 شیرازؔ کا حافظؔہو یا دلیؔ کا میرؔ، سب کا پیغام ایک ہے … محبت۔ اور محبت ہی وہ جذبہ ہے جو انسانوں میں یگانگت اور آہنگ پیدا کرتا ہے۔ امن بھی محبت کے پیغام سے قائم ہوتا ہے اور امن کے بغیر دنیا کی ترقی ممکن نہیں۔ ادیب دنیا کو ایسی ہی محبت کا پیغام دیتا ہے جس کے بغیر نہ انسانی وجود ممکن ہے اور نہ ترقی۔ ادب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ بے زبانوں کو زبان عطا کرتا ہے۔ عام آدمی محسوس تو کرتا ہے لیکن ان احساسات کو زبان عطا کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اور جب ادیب ان عام انسانوں کے احساسات و جذبات کو زبان عطا کرتا ہے تو اسے پڑھ کر انہیں خوشی حاصل ہوتی ہے، وہ اسے اپنی ترجمانی محسوس کرتے ہیں اور یہی احساس ادب کی معراج اور ادب کی افادیت ہے۔ 
 ادب پرانا ہونے کے باوجود ہر زمانے میں انسانوں کو ایک نئی زندگی عطا کرتا ہے، انہیں برائیوں سے نفرت دلاتا ہے اور اچھائیوں کی طرف راغب کرتا ہے۔ دوستوفسکی کے ناول بھی وہی کام کرتے ہیں جو غالب کے شعر۔ یہاں پہنچ کر ادب کی علاقائی اور ملکی حدود مٹ جاتی ہیں اور وہ پوری انسانیت کا سرمایہ بن جاتا ہے۔ ادب انسانوں کی بہتر زندگی کا نقیب بھی ہے اور اس کی لفظی تصویرکشی بھی کرتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK