Inquilab Logo

افسانہ: کاش....

Updated: October 28, 2023, 2:47 PM IST | Atiya Bi | Mumbai

مَیں شیشے میں بہت دیر خود کو نہارتی رہی کبھی سوچتی کہ بالوں کی چوٹی بنالوں تو کبھی سوچتی کہ چھوڑو آج کھلے بالوں کے ساتھ ہی چلتی ہوں۔ کبھی بالوں میں کنگھی پھیرتے ہوئے کوئی نئی ہیئر ٔاسٹائل ایجاد کرنے میں جٹ جاتی تو کبھی اس کے نہ بن پانے پر جھنجھلا کر بالوں کو سیدھا کرنا شروع کر دیتی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

مَیں شیشے میں بہت دیر خود کو نہارتی رہی کبھی سوچتی کہ بالوں کی چوٹی بنالوں تو کبھی سوچتی کہ چھوڑو آج کھلے بالوں کے ساتھ ہی چلتی ہوں۔ کبھی بالوں میں کنگھی پھیرتے ہوئے کوئی نئی ہیئر ٔاسٹائل ایجاد کرنے میں جٹ جاتی تو کبھی اس کے نہ بن پانے پر جھنجھلا کر بالوں کو سیدھا کرنا شروع کر دیتی۔ آج تو جان مشکل میں پھنس گئی۔ مَیں نے آسمان کی جانب دیکھا جیسے میں کسی آسمانی مدد کی منتظر ہوں۔
 روزانہ اسپتال جاتے وقت مجھے اس قسم کی مشقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا مگر آج اسپتال میں ہمارے سینئر کی الوداعی تقریب تھی جس کی وجہ سے مجھے اس کشمکش سے گزرنا پڑ رہا تھا۔
 ’’چلو چھوڑو.... آج بھی جوڑا ہی باندھ لیتی ہوں ، کون سی شادی کی تقریب میں جا رہی ہوں ...‘‘ اور یہ کہتے ہوئے میں نے بالوں کو ہاتھوں کی گرفت میں لیتے ہوئے پیچ در پیچ موڑتے ہوئے جوڑا کسنا شروع کیا۔
 چند ہی منٹوں میں اسپتال کے لئے روانہ ہوئی۔ چونکہ آج ہمارے سینئر ڈاکٹر کا دوسرے شہر میں تبادلہ ہوا تھا ان کی تمام تر ذمہ داریاں مجھے ملنے والی تھی۔ لہٰذا پارٹی کے بعد ان کا چارج بھی مجھے لینا تھا جس کے لئے میں آج مکمل تیار تھی۔
 پارٹی ہوئی بڑی خوشی کے ساتھ سینئر کو الوداع کہہ کر مریضوں کی جانب رخ کیا۔ مجھے اس بات پر زعم تھا کہ میں بہت مضبوط ہوں ۔ میں کسی بھی حالات کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو سکتی ہوں کسی بھی قسم کے مریضوں کو سنبھال سکتی ہوں ۔ اسی حوصلے کے ساتھ میں وارڈ میں داخل ہوئی۔
 وہ وارڈ کینسر کے مریضوں کا تھا جو زندگی کے آخری پڑائو سے گزر رہے تھے۔ داخل ہوتے وقت تو مجھے کچھ خاص احساس نہیں ہوا مگر جیسے جیسے ان سے قربت بڑھتی گئی ان کا درد مجھ پر عیاں ہونے لگا۔
 زندگی سے لڑ رہے ان مریضوں کا درد عام مریضوں سے جدا تھا۔ ان کا درد ان کے چہرے سے صاف ظاہر ہوتا تھا، ان کا اترا چہرہ، منڈا ہوا سر اور دھنسی ہوئی آنکھیں ، اس بات کی گواہ تھیں کہ شاید زندگی کی لڑائی میں وہ ہار چکے ہیں ۔ وہ زندگی کو اس انداز میں دیکھنا چاہتے ہیں جیسے عام انسان دیکھتا ہے۔ خوش رہنا چاہتے ہیں مگر وقت ان کے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسل رہا ہے۔ زندگی کی سرگوشیوں کو پوری طرح جینے کی خواہش ہر دن ان میں ایک نیا جذبہ تو پیدا ضرور کرتی تھی لیکن ان کی بیماری اس پر غالب ہوجاتی۔
 اسی طرح کچھ دن گزر گئے میری ہمدردی بھی ان سے روز بہ روز بڑھتی گئی۔ میں ہمیشہ فکر مند رہتی کہ میں ان کی زندگی اور ان کی خوشیاں ، ان کو واپس کر سکوں مگر ایسا ہونا مشکل تھا۔
 دوپہر کا وقت تھا نرس بیڈ نمبر ۴؍ پر دوا دینے کی بھر پور کوشش کر رہی تھی مگر وہ انکار کے علاوہ اور کوئی بات نہ کر تا۔ ’’ڈاکٹر صاحبہ بیڈ نمبر ۴؍ کا مریض دوا لینے کو ہر گز تیار نہیں ہیں ۔‘‘ نرس نے پریشان لب و لہجہ میں کہا۔ ’’اچھا! مگر کیوں کیا ہوا اس کو؟‘‘ میں نے فکر مند انہ لہجے میں کہا۔
 ’’پتہ نہیں کیا بات ہے؟ صبح سے خاموش خاموش سی بیٹھی ہے۔ کہتی ہے کچھ نہ کھائوں گی نہ پیوں گی۔‘‘
 میں یہ سن کر پریشان ہو گئی اور اپنی نشست سے خود کو الگ کرتے ہوئے میں بیڈ نمبر ۴؍ کے قریب جا پہنچی۔ 

’’کیا بات ہے آفرین آپ دوا کیوں نہیں لے رہیں ؟‘‘ میں نے شناخت کرتے ہوئے کہا۔
 ’’ مجھے دوا نہیں چاہئے بس مجھے اکیلا چھوڑ دیجئے۔‘‘ آفرین کے چہرہ پر پریشانی کے تاثر نمودار تھے، ’’مجھے کچھ نہیں کھانا مجھے بس مرنا ہے۔‘‘ آفرین نے میرا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا۔ 
 آفرین کی تیز آواز سے آس پاس کے تمام مریض جمع ہو گئے۔ 
 میں نے خود پر قابو پاتے ہوئے آفرین کو سنبھالا، ’’ کیا بات ہے مجھے بتائو تو؟ کس بات سے اتنی پریشان ہو؟‘‘
 ’’مجھے بہت پچھتاوا ہے اپنی زندگی سے....‘‘ اس نے آنکھوں سے نکلتے ہوئے آنسوں کو ہاتھوں سے پوچھتے ہوئے کہا۔ ’’کس بات کا پچھتاوا؟‘‘ میری جستجو اور بڑھ گئی۔ 
 آفرین کھڑکی کی طرف مڑ کر کسی گمنام دنیا میں کھو سی گئی۔ جیسے وہ ان میں کسی قیمتی چیز کو ڈھونڈنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہو۔ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ نے ہم سبھی کو اس کی طرف راغب کیا۔
 ’’کاش! میں نے اپنی زندگی اپنے حساب سے جی ہوتی.... اس بات کی پروا کئے بغیر کہ لوگ کیا سوچیں گے! میں تا عمر اسی فکر میں رہی کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اپنے پسند کے کپڑے نہیں پہنے لوگ کیا سوچیں گے۔ اپنی پسند کی نوکری نہیں کی کہ لو گ کیا سوچیں گے۔ کبھی اپنے شوق پورے نہیں کئے کہ لوگ کیا سوچیں گے۔ اپنے پسند کے لڑکے سے شادی نہیں کی کہ لوگ کیا سوچیں گے اور اسی الجھن میں زندگی کے آخری مراحل تک آپہنچی۔ جن کے لئے زندگی بھر سوچا ان ہی لوگوں نے مجھے اس راستے پر اکیلا چھوڑ دیا۔ یہ سوچے بغیر کہ مجھے ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ آفرین کی آنکھوں سے پگھلتا ہوا لاوا آنسو کی مانند چہرے کو آبلہ زار کر گیا جس نے پاس کھڑے تمام افراد کو اپنی زدمیں لے لیا۔
 ’’صحیح کہتی ہو... بالکل صحیح....‘‘ بیڈ نمبر ۳؍ کے مریض نے آفرین کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، ’’یہاں موجود ہر وہ انسان جو زندگی کی جنگ میں ایک ایک سانس کا حساب کتاب رکھ رہا ہے۔ اپنی زندگی میں کوئی نہ کوئی افسوس کے ساتھ ضرور ہمکنار ہو رہا ہے۔ مجھے بھی ہے....‘‘ یہ سنتے ہی میں نے سب کے دلوں کے حال جاننے سب کو اکٹھا کرتے ہوئے کہا، ’’چلو اچھا مجھے اپنے اپنے وہ راز بتائو جوسب کے دلوں میں دبے ہوئے ہیں ۔ جو آج تک آپ لوگ کسی کے ساتھ بانٹ نہیں پائے شاید آج یہ بتانے سے دل کچھ ہلکا ہو جائے۔‘‘
 یہ سنتے ہی مریضوں کی آنکھیں بھر آئیں اور سب نے ایک ایک کرکے اپنے راز مجھ پر عیاں کرنے شروع کر دیئے۔ 
 کسی کو یہ افسوس تھا کہ میں نے زندگی میں اتنا کام نہ کیا ہوتا، اپنے والدین اور بچوں کے لئے وقت نکالا ہوتا۔ اپنے بچوں کا بچپن دیکھا ہوتا۔ انہیں بڑے ہوتے دیکھا ہوتا۔ پوری زندگی کام اور صرف کام ہی نہ کیا ہوتا۔ ایک مشین بن کر زندگی نہ گزاری ہوتی....
 تو کسی کو اس بات کا ملال تھاکہ کاش میں نے اپنے احساسات بتائے ہوتے.... کاش میں اپنے والدین کو یہ بتا پاتا کہ میں ان سے کتنی محبت کرتا ہوں .... کاش میں اپنے بھائی بہنوں سے کہہ پاتا کہ میری زندگی میں وہ کیا مقام رکھتے ہیں ۔ کاش میں اپنے دل کے ان سبھی قریبی لوگوں سے کہہ پاتا کہ میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کاش میں بتا پاتا کہ تم نے میرا کتنا دل دکھایا ہے، تمہاری باتوں سے مجھے کتنی تکلیف ہوئی.... اس خوف سے کہ ہمارا رشتہ خراب نہ ہو جائے اپنے جذبات کا اظہار ہی نہ کر پایا۔
 کوئی کہتا کہ اسے اس بات کا ملال ہے کہ کاش! میں اپنے دوستوں کا ساتھ نہ چھوڑتا.... وہ دوست جنہوں نے زندگی کے مشکل راستوں پر میرا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا۔ زندگی کے تھپیڑوں نے ہم کو الگ الگ تو کر دیا.... کاش! میں ان سے رابطے میں رہتا۔ کاش! میں ان سے اپنے دل کا حال بتاتا رہتا۔ دوست اللہ کی دی ہوئی سب سے قیمتی شے ہے۔ ہم اپنے دل کا حال ان سے کہہ کر خود کو ہلکا محسوس کرتے ہیں ۔ کاش میں اپنے دل کا حال ان سے کہا ہوتا تو شاید یہ جان لیوا بیماری بھی مجھے نہ لگتی۔ کوئی کہتا: کاش! میں نے خود کو خوش رہنے دیا ہوتا۔
ہر مرنے والے انسان کو اس بات کا احساس تھا کہ اس کو کس چیز سے خوشی ملتی ہے۔ مگر اس نے اپنی خوشی کا گلا گھونٹ دیا یا اپنی زندگی دوسروں سے منسوب کر دی۔ دوسروں کی خوشی میں ہی اپنی خوشی ڈھونڈی۔ کاش! اس نے ایسا نہ کیا ہوتا تو شاید زندگی کچھ اور ہی ہوتی....
زندگی کے آخری سرے پر کھڑے لوگوں کی باتیں سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں خود کو کمزور محسوس کر رہی تھی۔ آج مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ زندگی کا ہر پل کتنا قیمتی ہے جس کا کوئی مول نہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK