Inquilab Logo

افسانہ : وجودِ زن

Updated: March 12, 2024, 11:05 AM IST | Aasiya Raees Khan | Mumbai

 ’’میرے پاس بالکل فرصت نہیں ہے۔‘‘ اس کی تیاری دیکھتے ہی نادیہ نے اعلان کیا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

فائزہ بیاض اور قلم لئے سب سے پہلے ماں کے پاس آئی۔
 ’’میرے پاس بالکل فرصت نہیں ہے۔‘‘ اس کی تیاری دیکھتے ہی نادیہ نے اعلان کیا۔
 ’’پہلے سن تو لیں۔‘‘ اس نے منہ پھلایا۔
 ’’مجھے پتہ ہے پھر کالج سے کوئی اسائنمنٹ ملا ہوگا۔‘‘ وہ میلے کپڑے چن چن کر واشنگ مشین میں ڈال رہی تھیں۔
 ’’اس بار بڑا دلچسپ سوال ہے، سنیں....‘‘ اس نے بیاض درمیان سے کھولی جہاں قلم رکھا تھا۔
 ’’آپ کے نزدیک وہ کیا خوبی یا بات ہے جو عورت کو عظیم بناتی ہے؟‘‘
 ’’کون عورت کو عظیم مانتا ہے؟‘‘ نادیہ نے ڈٹرجنٹ پاؤڈر کا ڈبہ کھولتے ہوئے ’کھول‘ کے دریافت کیا۔
 ’’ساری دنیا مانتی ہیں امی۔‘‘ فائزہ نے ماں کو یوں دیکھا مانو وہ ناشکری کی مرتکب ہو رہی ہو۔
 ’’جو مانتے ہیں ان ہی سے پوچھو پھر۔‘‘
 ’’تو کیا آپ نہیں مانتیں؟‘‘ اس نے حیرت سے آنکھیں بڑی کیں۔
 ’’یہ سب عورت کو بے وقوف بنانے کے ڈھکوسلے ہیں ورنہ عورت کو بس کام کرنے والی مشین سمجھا جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے واشنگ مشین کا ڈھکن زور سے بند کرکے بٹن دبایا تو فائزہ کو احساس ہوا کہ ماں کا مزاج بوجہ بگڑا ہوا ہے۔ وہ خاموشی سے وہاں سے کھسک گئی۔
 اس وقت دادی ہی فارغ بیٹھی اخبار کا آخری صفحہ دیکھ رہی تھیں۔ اس نے ان کے آگے اپنا سوال دہرایا۔ دادی نے اخبار بند کیا اور چشمہ ناک سے ہٹا کر اخبار پر رکھا۔
 ’’عورت کی وجہ سے تو دنیا کا کاروبار چل رہا ہے، وہ ہی ہے جو نئی زندگی کو دنیا میں لاتی ہے، درد سہتی ہے، پھر اسے پال پوس کے انسان بناتی ہے۔ اسے ماں کا درجہ دے کر، اس کے پیروں تلے جنت رکھ کر ہی اللہ نے عورت کو عظمت سے نوازا دیا تھا۔‘‘ دادی ہمیشہ اس کے اسائنمنٹ میں سب سے زیادہ دلچسپی لیتی تھیں۔
 ’’مطلب جو عورتیں ماں نہیں بن پاتیں وہ عظیم نہیں ہیں؟‘‘ اس کے سوال پر دادی کا مفکرانہ انداز ایک دم بدل گیا۔
 ’’بال کی کھال نہ نکالا کرو۔‘‘ انہوں نے اسے ڈانٹ دیا۔
 ’’لیکن میرا سوال بھی جائز ہے دادی۔‘‘
 ’’ایسی عورتوں کا صبر انہیں عظیم بناتا ہے۔‘‘
 ’’اچھا۔‘‘ اس کے پاس اس بیان پر بھی ایک سوال تھا مگر اس نے اتنے پر اکتفا کیا۔ پہلے ہی ماں کا مزاج بگڑا تھا اس پر دادی کے مزاج کا پارہ چڑھانا دانشمندی کے منافی تھا۔
 تبھی ریان پھوپھو کے ہمراہ سلام کرتا اندر آیا۔ ابا نے اسے صبح صبح انہیں لینے بھیجا تھا اور اس کا منہ ابھی تک پھولا ہوا تھا۔ اس نے لگے ہاتھوں پھوپھو سے بھی پوچھ ہی لیا۔
 ’’جس عورت میں حیا اور ایمان ہو وہ ہی عظیم کہلانے کی حقدار ہے۔‘‘ انہوں نے برقع اتارتے ہوئے سوچنے کو لمحہ بھی نہیں لیا تھا۔
 بیاض میں لکھتے ہوئے اس نے کن اکھیوں سے بھائی کو دیکھا۔
 ’’آپ بھی اس ٹاپک پر کچھ روشنی ڈال دیں تو مہربانی ہوگی۔‘‘
 کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کے حفظ ماتقدم کے طور پر جواب انگریزی میں دیا۔
 ’’عورت کے حسن کے بنا یہ دنیا بدصورت ہوتی، رہنے لائق نہ ہوتی، اس کی خوبصورتی ہی اسے عظیم بناتی ہے۔‘‘
 ’’یہ کیا گٹر پٹر کر رہا ہے؟‘‘ فرنگی زبان سنتے ہی دادی کے کان بھی کھڑے ہو جاتے تھے کہ ان سے راز رادی کیسی!
 ’’وہ کہہ رہا ہے وجودِ زن سے ہے تصویر ِ کائنات میں رنگ۔‘‘
 دادی نے مشکوک نظروں سے پوتے کو دیکھا جو وہاں زیادہ دیر ٹھہرا نہیں اور جوتے اتار کر اندر چلا گیا۔ پھوپھو مسکرانے لگیں۔
 ’’دادی آپ کو کوئی ایسی خاتون یاد ہیں جنہوں نے غیر معمولی صبر، ہمت اور سمجھداری دکھائی ہو، جو واقعی مثالی ہو؟‘‘
 ’’ہماری رشتے کی چاچی تھیں، جوانی میں بیوہ ہوگئی تھیں، بڑی مشکلیں سہی، بچوں کو پڑھایا لکھایا، نامساعد حالات میں حوصلہ نہیں ہارا، دنیا مثالیں دیتی تھی ان کی۔ ایک میری سہیلی کی خالہ تھیں وہ بہت غریب گھرانے سے تھیں لیکن پڑھنے کا شوق تھا تو بڑی محنت، جانفشانی اور بھاگ دوڑ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے کسی بڑے کالج میں پروفیسر لگی تھیں....‘‘ دادی آنکھیں چھوٹی کئے ماتھے پر بل ڈالے، دماغ پر زور دے رہی تھیں۔
 ’’ابھی تو ان کے علاوہ کوئی یاد نہیں آرہی مگر دنیا بھری پڑی عورت کی قربانی، ہمت اور صبر برداشت کی داستانوں سے۔‘‘
 ’’عورت کی خوبیاں مشکل اور پریشر میں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ جب اسے دیوار سے لگا دیا جائے تو وہ شیرنی بن کے پلٹتی ہے اور جب اسے کمزور، لاچار، بے سہارا مان کر دبانے کی کوشش کریں تو وہ اپنے ارادوں اور حوصلوں سے سب کو حیران کر دیتی ہے، بھابھی کہاں ہیں؟‘‘ پھوپھو نے برقع صوفے کی پشت پر رکھتے ہوئے کہا۔
 ’’اندر ہیں، مَیں آپ کے آنے کی اطلاع دیتی ہوں انہیں۔‘‘
 رات کھانے کے دوران اس نے منیر احمد ابا کو بھی اسائنمنٹ کا حصہ بنایا۔
 ’’عورت اور عظمت....‘‘ وہ پر سوچ انداز میں گویا ہوئے۔
 ’’بھئی میرے لئے تو تمہاری ماں اور میری ماں عظیم ہے وجہ ان کا میری اور تمہاری اور ریان کی ماں ہونا ہے۔‘‘ انہوں نے آسان جواب دے کر پلڑا جھاڑا۔ شکر تھا کہ پھوپھو جا چکی تھیں۔
 ’’اسی لئے صبح ذرا سی دیر ہونے پر مجھے پھوہڑ ہونے کا طعنہ دے کر گئے تھے۔‘‘ نادیہ نے دل میں سوچا لیکن یہ احساس بھی ہوا کہ یہ جواب تلافی کی کوشش ہی ہے۔
 سونے سے پہلے جب وہ اسائمنٹ کا آخری جائزہ لے رہی تھی، نادیہ اس کے دھلے اور تہ کئے کپڑے رکھنے کمرے میں آئیں۔
 ’’امی صرف آپ کا جواب نہ ہونا میرے اسائنمنٹ کو مکمل ہونے سے روک رہا ہے۔‘‘ اس نے کرسی گھما کے التجائیہ انداز میں کہا۔ نادیہ نے کچھ دیر بیٹی کو دیکھا پھر ایک گہری سانس لے کر اس کے پلنگ پر بیٹھ گئیں۔
 ’’یہ سوال ہی غلط ہے بیٹا اور اس کے جواب میں عورت کی قربانی اور حوصلے کی بڑی بڑی مثالیں بھی۔ قربانی، ہمت، مضبوط ارادے بلا تفریق جنس سب میں کم زیادہ ہوتے ہی ہیں۔ ہمارے معاشرے کی عورت کو جو خوبی جو باتیں اہم اور خاص بناتی ہیں وہ اس کے علاوہ کبھی کسی کو پتہ ہی نہیں چلتیں۔‘‘
 ’’ہیں! اس کا کیا مطلب ہوا؟‘‘
 ’’صبح سے شام تک گھر ہو یا دفتر یا کوئی اور جگہ، عورت کبھی اپنے بچوں کے لئے، کبھی گھر کے سکون کے لئے، کبھی ماں باپ اور بہن بھائیوں کے لئے تو کبھی کسی اور وجہ سے جانے کتنے خاموش سمجھوتے کرتی ہے، کتنے صبر کے گھونٹ پیتی ہے، کتنے آنسو اپنے اندر اتارتی ہے کوئی نہیں جان پاتا۔ کہاں کیسی قربانی دی، کب اپنی خواہش کا گلہ گھونٹا، کب زبان تک لانے سے پہلے طیش کو نگلا، کب خود پر جبر کیا، وہ یہ سب اپنے اندر دفن کر لیتی ہے۔ عورت جتنا اظہار زبان سے کرتی ہے اس سے کہیں زیادہ اپنے اندر رکھتی ہے اگر وہ سب کہنے لگے تو جانے کیا ہو۔ بلاشبہ آفت اور مصیبت میں ثابت قدمی، قربانی اور ہمت قابل تحسین خوبیاں ہیں۔ تاہم، ہر دن عورت جو معمولی اور چھوٹے موٹے معاملوں میں اپنا رد عمل، غصہ، ناراضگی وغیرہ خود تک رکھ کر حالات، معاملات سنبھالنے اور سکون و امن قائم رکھنے کی کوشش کرتی ہے، یہ میرے نزدیک اسے دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ یہ نہیں کہ مرد ایسا نہیں کرتے لیکن ہمارے معاشرے میں یہ ذمہ داری بڑی خاموشی سے عورتوں کی اکثریت نے اپنے کاندھے پر اٹھا رکھی ہے، سب کچھ ٹھیک سے چلتا رہے اس لئے وہ چپ چاپ جو کر گزرتی ہے، جو سہہ لیتی ہے، یہ ہی عورت کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔‘‘
 ’’مطلب یہ اسے عظیم بناتا ہے؟‘‘ اس کی بات پر نادیہ ہنس دی۔
 ’’اس طرح کے جملے یا خاص موقعوں پر بڑی بڑی باتیں اشتہار بازی سے زیادہ نہیں لگتی۔ مجھ سے پوچھو تو مجھے عظیم کہلوا کے کوئی خوشی نہیں ہوگی۔ اس کے بجائے کوئی میری کوششوں کا اعتراف اور احترام کرے تو مجھے اچھا لگے گا، ہر دن نہ سہی کسی خاص دن ہی سہی۔‘‘ فائزہ اٹھ کے ماں کے پاس آئی۔
 ’’مَیں کرتی ہوں اعتراف اور احترام امی۔‘‘
 ’’شکریہ۔‘‘ نادیہ نے بیٹی کا گال چھوتے ہوئے مسکرا کے کہا۔
 ’’اب سو جاؤ ورنہ پھر صبح بھاگ دوڑ میں ناشتہ چھوٹ جائے گا۔‘‘ نادیہ کھڑی ہوئیں۔
 ’’آپ کے چند جملوں کے بنا یہ مکمل کہاں تھا، پہلے انہیں لکھ لوں۔‘‘ وہ واپس کرسی پر بیٹھتے ہوئے گویا ہوئی۔
 نادیہ مسکراتے ہوئے کمرے سے چلی گئیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK