Inquilab Logo

اپنی زبان، اپنا مشن

Updated: February 25, 2024, 6:05 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اُردو زباندانی کی تدریس جتنی آسان ہے اُتنی ہی مشکل بھی ہے۔آسان اس لئے ہے کہ یہ طلبہ کی مادری زبان ہوتی ہے اس لئے امتحان کے نقطۂ نظر سے سبق سمجھانے کیلئے کوئی خاص زحمت نہیں اُٹھانی پڑتی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اُردو زباندانی کی تدریس جتنی آسان ہے اُتنی ہی مشکل بھی ہے۔آسان اس لئے ہے کہ یہ طلبہ کی مادری زبان ہوتی ہے اس لئے امتحان کے نقطۂ نظر سے سبق سمجھانے کیلئے کوئی خاص زحمت نہیں  اُٹھانی پڑتی۔ چند مشکل الفاظ کے معانی بتانا اور نثر و نظم کی تشریح کرکے سوال جواب کی مشق کروا دینا کافی ہوتا ہے۔ نئی نصابی سرگرمیوں  کے اعتبار سے اس میں  جو تبدیلیاں  آئی ہیں  وہ اپنی جگہ، مگر، بنیادی کام یہی ہوتا ہے۔ اسی لئے ہم نے کہا کہ یہ آسان ہے۔ مگر یہی کام مشکل بھی ہے اگر ایک معلم اپنے طلبہ کو نثر و نظم کے رموز و نکات اور جملوں  نیز مصرعوں  کی بندش سمجھائے، تذکیر و تانیث ا ور واحد جمع ذہن نشین کرائے اور صرف و نحو اور حسن بیان کی اہمیت سے روشناس کرائے۔ پُرخلوص، محنتی اور پُرجوش اساتذہ کی سعیٔ مشکور سے انکار نہیں  مگر وہ آٹے میں  نمک کے برابر ہیں ۔ 
 ہماری اطلاع کے مطابق، زیادہ تر اساتذہ روا رَوی میں  سبق پڑھاتے ہیں  اور امتحان کے نقطۂ نظر سے سوالوں  کے جوابات سمجھا اور لکھوا دیتے ہیں ۔ اساتذہ کی  تن آسانی، جوابدہی کا فقدان اور محکمۂ تعلیم کے اپنے طرز فکر کی وجہ سے اکثر اساتذہ زبان دانی کے مضمون کے ساتھ انصاف نہیں  کرپاتے جس کا نتیجہ ہے کہ طالب علم اگلی جماعتوں  میں  تو بآسانی پہنچ جاتا ہے مگر پچھلی جماعتوں  میں  اُسے جس معیار پر ہونا چاہئے تھا، نہیں  ہوتا۔ اٹک اٹک کر پڑھنا، تلفظ غلط ادا کرنا، الفاظ کے معانی اور مخارج سے ناواقف ہونا، تذکیر و تانیث اور واحد جمع میں  فرق نہ کرپانا، اشعار کو اشعار کی طرح نہ پڑھنا جیسے مسائل وقت کے ساتھ زیادہ پیچیدہ ہوتے چلے گئے ہیں ۔ کیا تو وہ دَور تھا کہ طالب علم کی معمولی غلطی پر استاذ چراغ پا ہوجاتا تھا، کیا تو یہ دور ہے کہ کوئی طالب علم گھریلو تربیت کے باعث دوسروں  سے بہتر ہو تو اُستاذ کو حیرت ہوتی ہے۔ اِس صورتحال سے اُردو کی تدریس کا پست معیار محتاج وضاحت نہیں ۔ 
 جب تک بنیادی اور اعلیٰ تعلیمی اداروں  میں  زباندانی کی تدریس معیاری نہیں  ہوگی تب تک اُردو زبان کا مستقبل شک و شبہ کے حصار سے باہر نہیں  آسکے گا خواہ غیر فعال اُردو اکیڈمیاں  اچانک فعال ہوجائیں ، ملک بھر میں  منعقد ہونے والے مشاعروں  کی تعداد دو تین گنا بڑھ جائے، فروغ اُردو کی محفلیں  اور اُردو کے نام پر ہونے والے جشن ہر شہر میں  برپا ہونے لگیں ، کتاب میلوں  میں  کتابوں  کی فروختگی بڑے بُک فیئرس کا ریکارڈ توڑ دے یا کرشماتی طور پر کچھ اور ہوجائے، اُردو کا مستقبل کسی چیز سے مشروط ہے تو وہ گھر اور کلاس روم ہے، اگر گھر بچے کے دل میں  اُردو کا چراغ روشن کرنے میں  کامیاب نہیں  ہوگا اور کلاس روم میں  اُس کی استعداد و صلاحیت بڑھانے کی مخلصانہ فکر نہیں  کی جائیگی تو جوکچھ بچ گیا ہے وہ بھی غارت ہوجائیگا۔ گھر کی فکر والدین اور خاندان کے بڑوں  کو کرنی ہے جبکہ کلاس روم کی فکر کے آثار دکھائی دےر ہے ہیں ۔ریاستی محکمۂ تعلیم کی ہدایت کے مطابق ایس سی ای آر ٹی کے دفتر میں  یونیسیف، ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ، ریجنل اکیڈمک اتھاریٹی اور پرتھم بُکس کی مشترکہ کاوشوں  سے منعقد کیاگیا تربیتی اجلاس اُمید افزا ہے جس میں  اساتذہ کو تدریس کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کی جانب متوجہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں   رغبت ِ کتب بڑھانے کیلئے طلبہ کو پُرکشش خطاب دینے کی مجوزہ اسکیم قابل قدر ہے۔ ہم نہیں  جانتے کہ بیان کئے گئے تربیتی مشوروں  اور رغبت کتب کی اسکیم کو کس طرح بروئے کار لایا جائیگا مگر یہ اچھی کوشش اور صحیح سمت میں  قدم ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK