Inquilab Logo

جب فاتح مکہؐ نے فرمایا: تم پر کوئی ملامت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو!

Updated: March 31, 2024, 4:53 PM IST | Dr. Syed Attaullah Shah Bukhari | Mumbai

رمضان المبارک ۸؍ہ جری تاریخ نبوت کا نہایت ہی عظیم الشان عنوان ہے اور سیرتِ مقدسہ کا یہ وہ سنہرا باب ہے کہ جس کی آب و تاب سے ہر مومن کا قلب قیامت تک مسرتوں کا آفتاب بنا رہے گا۔

On the occasion of the conquest of Makkah, the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) announced a general amnesty. Photo: INN
فتح مکہ کے موقع پر رحمۃ للعالمینؐ نے عفو عام کا اعلان فرما یا تھا۔ تصویر : آئی این این

رمضان المبارک ۸؍ہ جری تاریخ نبوت کا نہایت ہی عظیم الشان عنوان ہے اور سیرتِ مقدسہ کا یہ وہ سنہرا باب ہے کہ جس کی آب و تاب سے ہر مومن کا قلب قیامت تک مسرتوں کا آفتاب بنا رہے گا، کیونکہ تاج دار دوعالم ﷺنے اس تاریخ سے آٹھ سال قبل انتہائی رنجیدگی کے عالم میں مکہ سے ہجرت فرماکر اپنے وطن عزیز کو خیرباد کہہ دیا تھااور مکہ سے نکلتے وقت خدا کے مقدس گھر خانۂ کعبہ پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈال کر یہ فرماتے ہوئے مدینہ روانہ ہوئے تھے کہ اے مکہ!خدا کی قسم!تو میری نگاہِ محبت میں تمام دنیا کے شہروں سے زیادہ پیارا ہے، اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں ہرگز تجھے نہ چھوڑتا۔ آٹھ برس کے بعد یہی وہ مسرت خیز تاریخ ہے کہ آپ ﷺ نے ایک فاتح اعظم کی شان و شوکت کے ساتھ اسی شہر مکہ میں نزول اجلال فرمایا اور کعبۃ اللہ میں داخل ہوکر اپنے سجدوں کے جمال و جلال سےاللہ کے مقدس گھر کی عظمت کو سرفراز فرمایا۔ 
مکہ وہ جگہ تھی، جہاں پیغمبر علیہ السلام کے ساتھیوں پر مسلسل ۱۳؍سال تک ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، مدینہ منورہ پر بار بار چڑھائی کی گئی اور انہوں نے ہی اپنے ہاتھوں صلح حدیبیہ کی شرئط کو پامال کیا تھا۔ آج جب جاں نثارانِ نبوت کے ہاتھوں مکہ کے فتح کرنے کا وقت آرہاتھا تو ان ظالموں کے لئے معافی کے دروازے دنیا کے دستور کے مطابق بند ہو جانے چاہئے تھے، مگر دنیا کا دستور اورد نیا دار بادشاہوں کا طریقہ کچھ بھی رہا ہو، سرورِ کونین اور شاہِ دوجہاں رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اِس موقع پر جس دستور کو پیش کرکے دنیا کو حیرت زدہ کردیا، وہ یہ تھا جب مکہ میں حضور اکرم ﷺاور صحابہؓ کاداخلہ ہو رہا تھا تو دنیا نے یہ منظربھی دیکھا کہ آپﷺ اپنی اونٹنی قصویٰ پراِس طرح تشریف فرما تھے کہ آپ کا چہرۂ مبارک اونٹنی کے کجاوے سے جا لگا تھا اور صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اپنے رب کا شکر بجا لانے میں مصروف تھے۔ 
اِس موقع پر آپﷺ کے لبوں پر یہ آیت جاری تھی:’’اور اعلان فرما دیجئے کہ حق آگیا اور باطل شکست کھا گیا، بے شک باطل ہوتا ہی ہے مٹ جانے کے لئے ہے‘‘، بعض پُرجوش صحابہؓ کی طرف سے یہ کلمات پہنچے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ الیوم یوم الملحمۃ (آج تو جنگ و قتال کادن ہے) یعنی ان کا جذبہ انتقام جوش مار رہا، تو پیغمبر علیہ السلام نے اس جملے پر ناگواری ظاہر فرمائی اور اعلان کیا ’’آج (جنگ کادن نہیں، بلکہ) وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ کعبے کو مزید عظمت عطا فرمائے گا اور آج کے دن کعبے کو عزت کا لباس پہنایا جائے گا۔ ‘‘آپﷺ نے صحابۂ کرامؓ کو ہدایت کی کہ وہ حملہ کرنے میں ابتداء نہ کریں، بلکہ صرف دفاعی پوزیشن اختیار کریں، تاجداردوعالم ﷺنے مکے کی سرزمین میں قدم رکھتے ہی جو پہلا فرمان جاری فرمایا، وہ یہ تھا کہ جس کے لفظ لفظ میں رحمتوں کے دریا موجیں مار رہے ہیں :جو شخص ہتھیار ڈال دے گا، اس کے لئے امان ہے۔ اور پھر رحمت کو اس قدر جوش ہوا کہ اعلان کردیا :جو شخص سردارِ مکہ ابو سفیان کے گھر میں آجائے، وہ امن میں ہے جو حرم مکہ میں پناہ لے لے، وہ امن میں ہے اور جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر کے بیٹھ جائے، وہ بھی امن میں ہے۔ (ابن ہشام)
 اس کے بعد شہنشاہِ کونین ﷺنے ہزاروں کے مجمع میں ایک گہری نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ سرجھکائے، نگاہیں نیچی کئے ہوئے لرزاں و ترساں اشراف قریش کھڑے ہوئے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے آپ ﷺ کے راستوں میں کانٹے بچھائے تھے، بارہا آپؐ پر پتھروں کی بارش کی۔ قاتلانہ حملے کئے۔ آپ ﷺکے گلے میں چادر کا پھندا ڈال کر آپ کا گلا گھونٹے کی کوشش کی۔ آپؐ کے خون کےوہ پیاسے بھی تھے جن کی تشنہ لبی اور پیاس خون نبوت کے سوا کسی چیز سے نہیں بجھ سکتی تھی۔ جوروجفا اور ظلم و ستم گاری کے پیکر آج یہ سب کے سب مجرم بنے ہوئے کھڑے کانپ رہے تھے۔ آپﷺ کی نگاہِ رحمت ایسے لوگوں کی طرف متوجہ ہوئی اور آپﷺ نے پوچھا’’بولو! تمہیں کچھ معلوم ہے ؟کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں … اس سوال سے مجرمین حواس باختہ ہو کر کانپ اُٹھے، لیکن جبین رحمت کے پیغمبرانہ تیور کو دیکھ کر اُمید و بیم کے محشر میں لرزتے ہوئے سب یک زبان ہوکر بولے کہ ’’آپ کرم والے بھائی اور کرم والے باپ کے بیٹے ہیں۔ ‘‘
 سب کی للچائی ہوئی نظریں جمال نبوت کا منہ تک رہی تھیں اور سب کے کان آپﷺ کا فیصلہ کن جواب سننے کے منتظر تھے کہ دفعتاً فاتح مکہ ﷺنے اپنے کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا : 
 ’’آج تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔ ‘‘
 اللہ اکبر!کیا دنیا کے کسی فاتح کی کتاب زندگی میں کوئی ایسا حسین و زریں ورق موجود ہے؟ یہ نبیﷺ جمال و جلال کا وہ بے مثال شاہکار ہے کہ شاہان عالم کے لئے اس کا تصور بھی محال ہے۔ انسان کی فطرت میں انتقام اور قصاص کا عنصر موجود ہے اور یہ انفرادی واجتماعی دونوں سطحوں پر کارفرما رہتاہے، لیکن فاتح مکہ ﷺ نے اپنی علمی اور نبوی حیاتِ طیبہ میں دنیا پر یہ بات واضح کردی کہ آپ کو انہیں جوڑنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے، نہ کہ توڑنے کے لئے۔ گویا فتح مکہ کے پیش نظر آپﷺ کی عالمگیر تعلیمات، آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ، آپﷺ کے کردار جمیلہ، رواداری، عفوو درگزر سے عبارت ہے اور ثابت کردیا کہ امن و رواداری کا سب سے بڑا داعی دین اسلام ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK