Inquilab Logo

سال ۲۰۲۰ء : احتجاج سے احتجاج تک

Updated: December 31, 2020, 11:04 AM IST | Editorial

سال۲۰۲۰ء کی ابتداء اُس جوش و خروش سے ہوئی تھی جو تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں سی اے اے کے خلاف مظاہرے جاری تھے جن میں خواتین پیش پیش تھیں۔ شاہین باغ،دہلی تو پُرامن مظاہرے اور جمہوری مزاحمت کا سب سے بڑا مرکز بن کر اُبھرا، پھر اس کی توسیع کے طور پر ملک بھر میں شاہین باغ قائم ہوئے۔

Farmers Protest - Pic : PTI
کسانوں کا احتجاج ۔ تصویر : پی ٹی آئی

سال ۲۰۲۰ء کی ابتداء اُس جوش و خروش سے ہوئی تھی جو تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں سی اے اے کے خلاف مظاہرے جاری تھے جن میں خواتین پیش پیش تھیں۔ شاہین باغ،دہلی تو پُرامن مظاہرے اور جمہوری مزاحمت کا سب سے بڑا مرکز بن کر اُبھرا، پھر اس کی توسیع کے طور پر ملک بھر میں شاہین باغ قائم ہوئے۔ ان سب کو توڑنے کی جو کوششیں ہوئیں، وہ ان کے پُراثر ہونے کا بین ثبوت تھیں۔ اس احتجاج سے، عوام اور جمہوریت کی طاقت کا شعور بیدار اور مستحکم ہوا۔ قریب تھا کہ مظاہرین کو اپنے مقصد میں کامیابی ملتی، کورونا کی وباء پھیل گئی، لاک ڈاؤن اور اس کے ساتھ ہی غیرمعمولی پابندیاں نافذ ہوگئیں اور لوگ گھروں میں مقید ہو گئے۔ نتیجتاً ’شاہین باغی‘ احتجاج بھی تھم گیا۔ یہ نہ ہوا ہوتا تو ممکن تھا کہ حکومت سی اے اے کو واپس لیتی یا ’شاہین باغات‘ ہنوز قائم رہتے۔
 کورونا کیا پھیلا زندگی سمٹ گئی۔ ’قیدو بند‘ کی ابتداء مرکزی حکومت کے اعلان کردہ جنتا کرفیو سے ہوئی۔ گمان نہیں تھا کہ یک روزہ جنتا کرفیو بے مدت لاک ڈاؤن میں تبدیل ہوجائے گا مگر یہ ہوا اَور اس کے ساتھ ہی بہت کچھ ہوا۔ ہوتا ہی رہا۔ متاثرین کی تعداد بڑھتی چلی گئی، نظام ِ صحت کی قلعی کھل گئی، معلوم ہوا کہ ہم ایسی کسی وباء کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری طبی وسائل سے لیس نہیں ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ملک میں اسپتال کم ہیں اور اسپتالوں میں طبی عملہ اور بھی کم۔ اِس بحرانی کیفیت میں ہزاروں عام مریض ضروری اور معمول کی طبی امداد سے محروم کیا ہوئے اُن میں سے بہتوں کو زندگی ہی سے محروم ہوجانا پڑا۔ دن میں کئی کئی مرتبہ کسی نہ کسی کے انتقال کی خبر نے خوف کے ماحول میں رنج و غم کی سیاہی بھی گھول دی اور ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ الامان و الحفیظ۔ ابھی کورونا پوری طرح ختم نہیں ہوا ہے، ختم ہوجائے تب بھی اس سے ہونے والے نقصان کو اِس وقت کی دُنیا تو کبھی فراموش نہیں کرسکتی، آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گی کہ ایک وباء ایسی بھی تھی جس نے بیک وقت پوری دُنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ 
  وباء نے پوری دُنیا کو جس معاشی خسارہ سے دوچار کیا ہے اُس کا صحیح اندازہ اب بھی کسی کو نہیں ہے مگر ہر ایک کو یہ اندازہ ضرور ہے کہ نقصان کھربوں ڈالر کا ہوا ہے اور اگر یہ وائر س آج دفع ہوجائے تب بھی کئی مہینوں تک اس کے معاشی اثرات باقی رہیں گے۔ ان حالات کی وجہ سے بے روزگاری بڑھی، اندرون ملک بھی بیرون ملک بھی۔ اب معیشت کو راہ راست پر لانے کیلئے بڑے پیمانے پر، وہ بھی نتیجہ خیز، اقدامات کی ضرورت ہے، خاص طور پر وطن عزیز میں جو کورونا کی ہنگامہ بردوش اور ہلاکت خیز آمد سے پہلے بھی معاشی سست روی کا سامنا کررہا تھا۔
 اس دوران ستمبر میں مرکزی حکومت نے تین زرعی قوانین وضع کئے جن سے کسانوں میں بے چینی پھیل گئی۔ ابتداء میں ان کا احتجاج پنجاب اور ہریانہ تک محدود رہا مگر پھر وہ دہلی کی سرحدوں تک پہنچ گئے اور اب زائد از ایک ماہ سے احتجاج کے یہ مرکز قومی میڈیا کے کے تغافل کے باوجود مرکز ِ توجہ بنے ہوئے ہیں۔ تادم تحریر، مرکزی حکومت سے کسان تنظیموں کی ازسرنو گفتگو جاری ہے۔
  ۲۰۲۰ء سی اے اے کے خلاف مظاہروں سے شروع ہوا تھا۔ لاک ڈاؤن سے تنگ آکر مزدوروں کے سڑکوں پر نکل آنے کو بھی احتجاج ہی مان لیا جائے تو تصویر نمایاں ہوجائے گی کہ اس سال کی ابتداء احتجاج سے ہوئی، درمیان میں بھی احتجاج ہوتا رہا اور اب اس کا اختتام بھی (کسانوں کے) احتجاج پر ہورہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK