Inquilab Logo

اختراع: نیوکلیائی فیوژن کے تجربے کے ذریعے لامحدود توانائی کے حصول کا تجربہ کامیاب

Updated: December 15, 2022, 11:53 AM IST | Mumbai

امریکہ میں حکومتی سائنسدانوں نے فیوژن توانائی کے حصول میں ایک انتہائی اہم کامیابی حاصل کی ہے۔ واضح رہے کہ ہمارا سورج نیوکلیائی فیوژن (عملِ گداخت) کے ذریعے توانائی پیدا کرتا ہے

photo;INN
تصویر :آئی این این

امریکہ میں حکومتی سائنسدانوں نے فیوژن توانائی کے حصول میں ایک انتہائی اہم کامیابی حاصل کی ہے۔ واضح رہے کہ ہمارا سورج نیوکلیائی فیوژن (عملِ گداخت) کے ذریعے توانائی پیدا کرتا ہے جس میں ہائیڈروجن ایٹم باہم مل کر ہیلیئم بناتے ہیں۔ اس عمل میں غیرمعمولی توانائی حاصل ہوتی ہے۔ غیرملکی ایجنسی کی رپورٹ  کے مطابق امریکی ریاست کیلیفورنیا میں قائم لارنس لِیورمور نیشنل لیبارٹری کے سائنسدانوں نے حال ہی میں پہلی بار ایک فیوژن ری ایکشن میں اضافی توانائی کی پیداوار حاصل کی ہے جو خرچ کی جانے والی توانائی سے زیادہ ہے۔ لارنس لیورمور نیشنل لیبارٹری میں واقع نیشنل اگنیشن فیسلٹی (این آئی ایف) نے لیزر استعمال کرتے ہوئے پہلے۲ء۱؍  ملین جول توانائی خرچ کی اور اس سے۲ء۵؍ ملین جول توانائی حاصل کی۔
 خیال رہے کہ فیوژن ری ایکشن ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس میں دو ہلکے ایٹم کے مرکزے مل ایک بھاری ایٹم کا نیوکلیئس بناتے ہیں۔ جب مرکزے ملتے ہیں تو ان کے ملاپ کے توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ اگرچہ روایتی بجلی گھروں کی طرح فیوژن پاور اسٹیشن کی منزل ابھی بہت دور ہے لیکن دنیا میں رکازی (فاسل) ایندھن سے اجتناب اور صاف توانائی کے حصول میں اسے ایک اہم پیشرفت قرار دیا جارہا ہے۔ تجربہ گاہ کے سائنسدانوں کے مطابق یہ لیزر فیوژن میں ایک اہم سنگِ میل ہے جس سے مستقبل میں صاف، لامحدود اور قابلِ اعتبار توانائی بنائی جاسکے گی۔ اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مضر گیسیں خارج نہیں ہوتیں جبکہ پیٹرول، کوئلے اور دیگر ذرائع کی توانائی سے مضر گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہوتا ہے جس سے ہمارے موسمیاتی توازن اور ماحول پر شدید منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
 ایک پلازمہ سائنس دان ڈاکٹر آرتھر ٹیورل کا کہنا تھا کہ اگر اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے تو ہم تاریخ رقم ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ سائنسداں ۱۹۵۰ء کی دہائی سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فیوژن کھپت سے زیادہ توانائی خارج کر سکتا ہے اور لارینس لیورمور کے سائنس دانوں نے دہائیوں پرانا مقصد پورا کر لیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK