Inquilab Logo

؍ ۳۰تا۳۵؍فیصد طلبہ اب بھی ممبئی نہیں لوٹے ہیں

Updated: March 29, 2022, 8:15 AM IST | saadat khan | Mumbai

’ٹرینڈریسرچ اینالسس سینٹر‘کے سروے کے مطابق شہرومضافات کے ۵۱؍نجی اسکولوں کے ۵۸؍ فیصدطلبہ کے والدین واپس آنا چاہتےہیں مگر آمدنی کا ذریعہ نہ ہونے سے وہ مجبور ہیں ۔ ۴۳؍ فیصد سرپرست بے تحاشا مہنگائی سے پریشان ہوکردوبارہ آبائی وطن لوٹنے کا سوچ رہےہیں ۔اُردو میڈیم اسکول کو نقصان پہنچنےکااندیشہ

Hundreds of migrant workers returning to Mumbai from their homeland are not getting any relief. (File photo)
آبائی وطن سے ممبئی لوٹنے والےسیکڑوںمہاجرمزدوروں کو کوئی راحت نہیں مل رہی ہے۔(فائل فوٹو)

 ٹرینڈریسرچ اینالسس سینٹر (ٹی آر اے سی) کے سروے کےمطابق کووڈ۱۹؍ کی وجہ سے آبائی وطن جانےوالے شہرومضافات کے نجی اُردو میڈیم اسکولوںکے ۳۰؍تا۳۵؍فیصد طلبہ اب بھی ممبئی نہیں لوٹے ہیں۔اس ضمن میں  ۵۱؍نجی اسکولوں سے حاصل کردہ تفصیلات کے مطابق ۵۸؍ فیصد والدین ممبئی واپس آنا چاہتےہیں مگر آمدنی کا ذریعہ نہ ہونے سے وہ مجبور ہیں جبکہ ۴۳؍ فیصد سرپرست ایسے ہیں جو مہنگائی سے پریشان ہوکردوبارہ آبائی وطن لوٹنے کےبارےمیں سوچ رہےہیں ۔ ایسے طلبہ کوجلد ازجلد اسکول سے نہ جوڑا گیا یا انہیں تلاش نہیں کیاگیاتو اُردو میڈیم اسکولوں کو نقصان پہنچنےکا اندیشہ ہے۔
 ٹی آر اے سی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حنیف لکڑاوالانے اس بارے میں انقلاب کو بتایاکہ ’’ ریاستی محکمۂ تعلیم نے ۳۱؍ مارچ تک تمام طلبہ کےآدھارکارڈکی تفصیلات سرل پورٹل پر اپ لوڈ کرنے کی ہدایت دی ہےجس سے اسکول انتظامیہ میں بے چینی پائی جار ہی ہے کیونکہ اب بھی بیشتر اسکولوںنے یہ کام مکمل نہیں کیاہے   جبکہ اس کی بنیاد پر ہی ٹیچروںکی تقرری کی جائے گی ۔ اگر جلد ہی یہ کام نہیں کیاگیاتو سیکڑوں اساتذہ کےسرپلس ہونےکا خدشہ ہے۔ اسی کے پیش نظر  کئے گئے ایک سروے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ کووڈ ۱۹؍کی وجہ سے جو لوگ آبائی وطن چلے گئے ہیں، ان میں سے نجی امدادیافتہ اُردو اسکولوںکے ۳۰؍تا ۳۵؍ فیصد طلبہ اب بھی ممبئی نہیں آئے ہیںجس کی متعدد وجوہات ہیںجن میں بےروزگاری اور بڑھتی مہنگائی بھی شامل ہے۔‘‘ انہوں نے مزیدبتایا کہ ’’ ہم نے ممبئی کی ۵۱؍اُردومیڈیم نجی اسکول کا سروے کیاہے  ۔ ان کے ۱۰۶؍ طلبہ جن کے نام سرل پورٹل میں درج ہیں ، کے والدین اور سرپرستوں سے گفتگو کی گئی  جو لاک ڈائون میں  نرمی کےبعد آبائی وطن سے ممبئی واپس آئے ہیں۔ان ۱۰۶؍ میں سے ۴۳؍  سرپرستوں کاکہناہےکہ بے روزگاری اور یہاں کی مہنگائی سے پریشان ہوکر وہ دوبارہ آبائی وطن جانے کے بارے میں سوچ رہےہیں کیونکہ یہاںمستقل آمدنی کا ذریعہ نہیں ہےجبکہ ان تمام ۱۰۶؍ سرپرستوںنے یہ شکایت کی ہےکہ ممبئی واپس آنےکےبعد ان کی کسی مسلم ادارے ، غیرسرکاری تنظیم اور حکومت کی طرف سے مدد نہیں کی گئی  ۔ ان میں سے ۵۸؍سرپرستوں کا کہناہےکہ ان کے متعدد عزیزوں کے بچے  اسکولوںمیں زیرتعلیم تھے مگر فی الحال وہ وطن میں ہیں۔وہ اپنے بچوںکو پڑھانا چاہتےہیں مگر آمدنی کا ذریعہ نہ ہونے سے وہ ممبئی نہیں آرہےہیں ۔ انہیں مدد پہنچانےکی ضرورت ہے۔ ‘‘  انہوںنے یہ بھی بتایاکہ ’’ مذکورہ ۵۱؍اسکولوںکے ہیڈماسٹر وں کاکہناہےکہ ایسے طلبہ کو تلاش کرنےکیلئے ہمیں مزید وقت چاہئے ۔ انہیںتلاش کرکے ان کی تفصیلات سرل پورٹل پر اپ لوڈ کرنے کیلئے ہمیں وقت دیا جائے ، اس سےقبل اساتذہ کی تقرری کا فیصلہ نہ کیاجائےو رنہ ان طلبہ کی غیر حاضری سے متعدد اساتذہ کے سرپلس ہونے کا خطرہ ہے ۔ اس لئے محکمۂ تعلیم سے اپیل ہےکہ  وہ کسی بھی ٹیچر کو سرپلس کرنے سے پہلے ہماری مشکلو ںکو سمجھنے کی کوشش کرے ۔   متعدد طلبہ نے پڑھائی بھی ترک کردی ہے ۔اس طرح کے طلبہ کو تلاش کرنا اور انہیں تعلیم سے جوڑنا وقت کی ضرورت ہے۔‘‘  
 حنیف لکڑاوالا کے مطابق  ’’ اگر ایسے طلبہ کو تلاش نہیں کیاگیاتو ان کےناخواندہ رہ جانےکا اندیشہ ہے جس سے یہ طلبہ ہمیشہ کیلئے غریبی کی سطح سےنیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوسکتےہیں۔ اگر مذکورہ اسکولوںنے ان طلبہ کوتلاش نہیں کیاتو ان کیلئے بھی سنگین مسئلہ پیداہوسکتاہے اور سیکڑوں اساتذہ کے سرپلس ہونےکا بھی اندیشہ ہے۔ ان طلبہ کو تلاش کرنے کیلئے اسکولوںنے کوئی منظم منصوبہ نہیں بنایا ہےلہٰذا اسکولوں کو  اس معاملہ میں انتہائی سنجیدگی کامظاہرہ کرنا چاہئے ۔اس کا یہ مطلب نہیں ہےکہ ہم نا اُمید ہوجائیں ۔ ہمیں ان طلبہ کو تلاش کرنےکی متواتر کوشش کرنی ہوگی، اس طرح ہم ان کے اور اُردومیڈیم اسکولوںکے مستقبل کو محفوظ کرسکتےہیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK