Inquilab Logo

ہندوستانی مسلمانوں کیلئے صورتحال نسل کشی کی طرف جارہی ہے : اروندھتی رائے

Updated: April 19, 2020, 11:56 AM IST | Agency | New Delhi

معروف مصنفہ نے جرمن ریڈیو کو دئیے گئے اپنے انٹر ویو میں کورونا کے حوالے سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے پرشدید تشویش کا اظہار کیا

Arundhati Roy - Pic : INN
اروندھوتی رائے ۔ تصویر : آئی این این

معروف مصنفہ اروندھتی رائے نے  ڈوئچے ویلے(جرمن ریڈیو) کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کورونا کے حوالے سے مسلمانوںکے نشانہ بنائے جانے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہےاور خبردار کیا ہے کہ  پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے کورونا وائرس  کی آڑ میں ہندوستان میں جو صورت حال پیدا ہو رہی ہے، اس پر پوری دنیا کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی والے اس ملک  میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کے ۶؍ میں سے ۳؍ ہفتے پورے ہو چکے ہیں۔  جبکہ اس کی آڑ میں شرپسند عناصر فرقہ  وارانہ کشیدگی کو ہوادینے پر تلے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوںمیرٹھ میں مسلم اقلیتی شہریوں ’کورونا جہاد‘ کے نام پر نشانہ بنانے کی خبریں ملی تھیں۔
’مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بحران‘
 ڈی ڈبلیو نیوز(جرمن پورٹل) نے اس پس منظر میں معروف  ناول نگار اور سماجی کارکن اروندھتی رائے کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان سے یہ پوچھا کہ وہ کیا کہنا چاہیں گی کہ اس وقت ان کے اپنے وطن میں کیا ہو رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں اروندھتی نے کہا کہ ’’ہندوستان میں کورو ناکا مرض اب تک کسی حقیقی بحران کی وجہ نہیں بنا۔ اصل بحران تو نفرت اور بھوک کا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک بحران ہے، جس سے قبل دہلی میں قتل عام بھی ہوا تھا۔ قتل عام، جو اس بات کا نتیجہ تھا کہ لوگ شہریت سے متعلق ایک مسلم مخالف قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس وقت بھی جب ہم یہ گفتگو کر ر ہے ہیں، کورونا وائرس کی وبا کی آڑ میں حکومت نوجوان طلبہ کو گرفتار کرنے میں لگی ہے۔ وکلاء، سینئر مدیران، سیاسی اور سماجی کارکنوں اور دانشوروں کے خلاف مقدمات قائم کیے جا چکے ہیںاور ان میں سے کچھ کو تو حال ہی میں جیلوں میں بند بھی کیا جا چکا ہے۔‘‘
 ڈی ڈبلیو نیوز کی سارہ کَیلی نے اس انٹرویو میں اروندھتی رائے سے یہ بھی پوچھا کہ اگر ان کے بقول  ہندوستان میں اصل بحران نفرت کا بحران ہے، تو پھر ایک سماجی کارکن کے طور پر خود ان کا  ہندوستان کی حکومت کے لیے پیغام کیا ہو گا، جو بظاہر کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے؟
 اس سوال کے جواب میں متعدد ناولوں کی انعام یافتہ مصنفہ اروندھتی رائے نے کہا کہ’’مقصد ہی یہی ہے۔ آر ایس ایس جس سے وزیر اعظم مودی کا بھی تعلق ہے اور جو حکمراں جماعت بی جے پی کے پیچھے سرگرم اصل طاقت ہے، وہ تو عرصے سے یہ کہتی رہی ہے کہ ہندوستان کو ایک ’ہندو راشٹر‘ ہونا چاہئے۔اس کے نظریہ سازہندوستانی مسلمانوں کو ماضی کے جرمنی میں یہودیوں سے تشبیہ دے چکے ہیں۔ جس طرح ہندوستان میں کورونا کو استعمال کیا جا رہا ہے، وہ طریقہ کافی حد تک ٹائیفائیڈ کے اس مرض جیسا ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے نازیوں نے یہودیوں کو ان کے رہائشی علاقوں میں ہی رہنے پر مجبور کیا تھا۔ میں ہندوستان میں عام لوگوں اور دنیا بھر کے انسانوں کو یہی کہوں گی کہ وہ اس صورت حال کو ہلکے پھلکے انداز میں نہ لیں۔‘‘
’ہندوستان میں صورت حال نسل کشی کی طرف بڑھتی ہوئی‘
 اروندھتی رائے نے اپنی اس تنبیہ کی وضاحت کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ’’ہندوستان میں اس وقت صورت حال نسل کشی کی طرف جا رہی ہے، کیونکہ حکومت کا ایجنڈا یہی رہا ہے۔ جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے، مسلمانوں کو جلایا گیا اور ہجومی تشدد کے ذریعے ان میں خوف پیدا کیاگیا لیکن اب مسلمانوں کو اس وبا سے جوڑنے سے حکومت کی پالیسیاں کھل کر سامنے آ گئی ہیں۔ آپ ہر جگہ ان کی بازگشت سن سکتے ہیں۔ اس بات کے ساتھ شدید تشدد اور خونریزی کا خطرہ بھی جڑا ہوا ہے۔ اب تو اسی شہریت ترمیمی قانون کا نام لے کر حراستی مراکز کی تعمیر بھی شروع ہو چکی ہے۔ اب اس صورت حال کو بے ضرر سا بنا کر اور کورونا وائرس کی وبا سے منسوب کر کے ایسا کچھ کرنے کی کوشش کی جائے گی جس پردنیا کو اچھی طرح نظر رکھنا چاہئے۔ اس سے زیادہ اس خطرے کی نشاندہی میں نہیں کر سکتی۔‘‘
 اروندھتی رائے نے حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں بھی لکھا تھا کہ ہندوستان کے موجودہ حالات ایک ایسا المیہ ہیں، جو بہت بڑا اور حقیقی تو ہے لیکن نیا نہیں ہے۔تو پھر اس المیے کی نشاندی کے حوالے سے کس کی آنکھیں کھلی ہیں اور کس کی آنکھیں بند ہیں؟‘‘ اس پر رائے کا جواب تھا،’’دنیا کی آنکھیں بند ہیں۔ ہر بین الاقوامی لیڈر وزیر اعظم نریندر مودی کا خیر مقدم کرتا اور گلے ملتا نظر آتا ہے، حالانکہ وہ بھی تو خود اس پورے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ جب پرتشدد واقعات شروع ہوتے ہیں، تو مودی خاموش رہتے ہیں۔ دہلی میں جو گزشتہ قتل عام ہوا، وہ وہی وقت تھا جب امریکی صدر ٹرمپ بھی ہندوستان کے دورے پر تھے۔ لیکن ٹرمپ نے بھی کچھ نہ کہا۔ کوئی بھی کچھ نہیں کہتا۔ اسی طرح ہندوستانی میڈیا بھی، سارا نہیں لیکن اس کا ایک حصہ، آج کل ایک نسل کش میڈیا بنا ہوا ہے، ان جذبات کی وجہ سے جن کو ابھارنے کا وہ کام کر رہا ہے۔ بھوک کے اس بحران کی تو میں نے ابھی بات ہی نہیں کی جس کا کئی ملین ہندوستانی باشندوں کو سامنا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK