Inquilab Logo

کرناٹک میں اسمبلی الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی ہلچل تیز

Updated: March 30, 2023, 11:12 AM IST | Bangalore

وزیراعلیٰ نے تمام سرکاری مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر انتخابی مہم میں جٹ جانے کا اعلان کیا، ناراض وزیر کو منا لیاگیا، کانگریس ’۴۰؍ فیصد‘ سرکار کو ہرانے کیلئے پُر عزم

The Aam Aadmi Party also jumped into the Karnataka election frenzy, announcing to field candidates on all seats
عام آدمی پارٹی بھی کرناٹک کے انتخابی دنگل میں کود پڑی، تمام سیٹوں پر امیدوار اتارنے کا اعلان

 کرناٹک میں انتخابی تاریخوں  کا اعلان  ہوتے ہی سیاسی ہلچل تیز ہوگئی ہے۔  ایک طرف جہاں کانگریس نے  بی جےپی کی ’’۴۰؍ فیصد کمیشن سرکار‘‘کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے عزم کااظہار کیا ہے وہیں  وزیراعلیٰ   بسوراج بومئی نے اپنی تمام سرکاری مصروفیات کو ترک کرکے انتخابی مہم میں جٹ جانے کا اعلان  کیا ہے۔ بی جےپی کے ناراض وزیر وی سومنّا جن  کے استعفیٰ اور کانگریس میں شامل ہونے کی قیاس آرائیاں چل رہی تھیں، کو بھی زعفرانی پارٹی منا لینے میں کامیاب ہوگئی۔ انہوں نے بدھ کو یدی یورپا کو ’سپریم لیڈر‘ تسلیم کیا۔ 
 ۴۰؍ فیصد کمیشن سرکار کو ہرانے کا عزم
  الیکشن کمیشن کے اس اعلان کے بعد کہ کرناٹک کی ۲۲۴؍ رکنی اسمبلی کیلئے ووٹنگ ۱۰؍ مئی کو اور نتائج کا اعلان ۱۳؍ مئی کو کیا جائےگا،  کانگریس نے اپنے اس عزم کو دہرایا ہے کہ وہ  اس بات ریاست  میں بی جےپی کی ’’۴۰؍ فیصد کمیشن سرکار‘ ‘ کو اقتدار سے بے دخل کردیگی۔  پارٹی کے ترجمان اور کرناٹک امور کے انچارچ رندیپ سرجے والا نے کہا کہ ریاست میں عوام کے آشیرواد سے اگلی حکومت کانگریس بنائے گی۔ ان کے مطابق’’کانگریس ریاست میں  امن، ترقی اور بھائی چارہ کے ایک نئے عہد کے آغاز کیلئے پرامید ہے۔ ‘‘
وزارت اعلیٰ کیلئےکوئی چہرہ نہیں ہوگا
 کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے کہا ہے کہ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں پارٹی کا کوئی چہرہ نہیں ہوگا اورالیکشن کا نتیجہ آنے کے بعد  ایم ایل ایز اور ہائی کمان کی رضامندی سے  نئے وزیر اعلیٰ کا تقررکیا جائے گا۔الیکشن کمیشن کی طرف سے کرناٹک اسمبلی انتخابات کے اعلان کے بعد صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کھرگے نےکہا کہ الیکشن سے پہلے وزیراعلیٰ کے چہرے کا اعلان کرنے سے دھڑے بندی کی سیاست بڑھ جاتی ہے اور لوگ آپس میں لڑتے ہیں، جس سے پارٹی کو نقصان ہوتا ہے، اس لیے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں پہلے کسی کو بھی وزیر اعلیٰ کا چہرہ نہیں بنایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کرناٹک میں کانگریس جیت رہی ہے، اسی لیے بی جے پی نے وہاں اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ بی جے پی کے بڑے بڑے لیڈر وہاں موجود ہیں اور کانگریس کو گھیرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ریاست کے عوام نے بی جے پی کو مسترد کر دیا ہے اور وہاں کانگریس کی حکومت بن رہی ہے۔
 سدارمیا کا آخری الیکشن
  انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی کانگریس کے سابق وزیراعلیٰ سدا رمیا نے بدھ کو پھر اپنے اعلان کو دہرایا کہ یہ ان کا آخری الیکشن ہوگا۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ اس کے بعد وہ انتخابی سیاست سے دور رہیں گے۔  انہوں نے  کہا کہ ’’ اسکے بعد میں سیاست سے سبکدوشی اختیار کرلوںگا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’میری خواہش ہے کہ میں  اسمبلی میں  اپنے آبائی  علاقے کی نمائندگی کروں اور ریٹائر ہوجاؤں۔‘‘
 بی جےپی نے ناراض وزیر کو منا لیا
  اس بیچ بی جےپی نے اپنے ناراض وزیر جو لنگایت سماج سے تعلق رکھتے ہیں کو منا لینے میں  کامیابی حاصل کرلی۔ا یس سومنّا کے بارے میں  قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ وہ  بی جےپی سے علاحدگی اختیار کرکے کانگریس میں شامل ہوجائیں گے۔ان کی ناراضگی پارٹی کے سینئر لیڈر  یدی یورپا سے تھی مگر حیرت انگیز طور پر بدھ کو انہوں نے یورپا کو اپنے سماج کا ’سپریم لیڈر‘ تسلیم کرلیا۔  واضح رہے کہ سومنا اہم لیڈروں میں  شمار ہوتے ہیں جنہوں نے لوک سبھا الیکشن میں  سابق وزیراعلیٰ  ایچ ڈی دیوے گوڑا کی شکست میں اہم رول ادا کیاتھا۔  سومنا نے وزیراعلیٰ بومئی اور سابق وزیراعلیٰ یدی یورپا سے مفاہمت کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’وزیراعلیٰ  بسوراج بومئی اسمارٹ شخص ہیں جنہوں نےبہتر انتظامیہ فراہم کی جبکہ یدی یورپاسپریم لیڈر ہیں۔‘‘
بومئی کو  بی جےپی کی فتح کا یقین
  وزیراعلیٰ بسوراج بومئی نے کرناٹک میں  ایک بار پھر بی جےپی کی فتح کا یقین ظاہر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی تمام سرکاری مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر انتخابی مہم میں  جٹ جائینگے۔  انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’بی جےپی الیکشن کیلئے ہمہ وقت تیار رہنے والی پارٹی ہے جس کا تنظیمی ڈھانچہ بہت مضبوط ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ہم الیکشن کیلئے تیار ہیں، ہم نے بہت مہم چلائی ہے جس کے دوران عوام کا ردعمل حوصلہ افزا رہاہے۔‘‘بسوراج بومئی نے اپنی ہی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا کہ’’ڈبل انجن سرکار نے انفرااسٹرکچر اور دیگر محاذ میں بہت عمدہ کام کیا ہے۔سماج کے تمام طبقوں نے اس کی تائید کی ہے۔‘‘
  بہرحال اس کے برخلاف سیاسی مبصرین کے مطابق  بی جےپی کو کرناٹک میں اقتدار بچانے میں ناکوں چنے چبانے پڑسکتے ہیں کیوں کہ عوام کے بڑے حصے میں شدید ناراضگی ہے۔

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK