ریاست کے ۱۵؍ اضلاع میں کسانوں پر مجموعی طور پر ۳۱؍ ہزار کروڑ روپے قرض بقایا ہے ، بینک انہیں مزید قرض دینے سے کترا رہے ہیں
EPAPER
Updated: July 02, 2025, 10:57 PM IST | Solapur
ریاست کے ۱۵؍ اضلاع میں کسانوں پر مجموعی طور پر ۳۱؍ ہزار کروڑ روپے قرض بقایا ہے ، بینک انہیں مزید قرض دینے سے کترا رہے ہیں
ایک طرف اسمبلی میں اپوزیشن اس بات پر آواز بلند کر رہا ہے کہ حکومت کسانوں سے کئے گئے قرض معافی کے وعدوں کو پورا کرے جبکہ دوسری طرف خبر آ رہی ہے کہ ریاست بھر میں ۲۰؍ لاکھ سے زائد کسان ایسے ہیں جنہیں بینکوں سے قرض ملنا اب مشکل ہے کیونکہ ان پر سابقہ قرض باقی ہے ۔ مجموعی طور پر ۳۱؍ ہزار کروڑ روپے سے زائد کی رقم ان کسانوں پر بقایا ہے۔ حکومت مہاراشٹر کی بینکرس کمیٹی کی جاری کردہ رپورٹ میں اس کی اطلاع دی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسانوں کو امید ہے کہ حکومت ان کا قرض معاف کر دے گی اس لئے وہ قرض ادا کرنے سے گریز کر رہے ہیں جبکہ بینک نے انہیں نوٹس بھی جاری کیا ہے۔
یاد رہے کہ مہایوتی حکومت نے اسمبلی الیکشن کے دوران کسانوں سے قرض معافی کا وعدہ کیا تھا۔ اس کی وجہ سے لاکھوں کسانوں نے اپنا قرض ادا نہیں کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بے موسم برسات اور فصلوںکے مناسب دام نہ ملنے پر کسانوں کو نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن حکومت نے قرض معافی کا کوئی اعلان اب تک نہیں کیا ہے ۔ اُدھر بینکوں نے کسانوں کے نام نوٹس جاری کیا ہے کہ وہ اپنا قرض ادا کریں لیکن نوٹس ملنے پر بھی کسانوں نے بینک کا رخ نہیں کیا کیونکہ انہیں اب بھی امید ہے کہ حکومت ان کا قرض معاف کر دے گی۔
اس دوران ریاستی بینکرس کمیٹی نے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست کے ۱۵؍ مختلف اضلاع میں ۲۰؍ لاکھ ۳۷؍ ہزار ۲۱۰؍ کسان ایسے ہیں جنہوں نے بینک سے لیا ہوا قرض واپس نہیں کیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ قرض۳۱؍ ہزار ۲۵۴؍ کروڑ روپے بنتا ہے۔ ان میں بیڑ ، جالنہ، ناندیڑ، بلڈانہ اور ایوت محل کے علاوہ ناسک کولہاپور ناگپور، ممبئی ، عثمان آباد پونے اور پربھنی کے کسان شامل ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ ۲؍ ہزار ۷۹۰؍ کروڑ روپےکی رقم ناسک کے کسانوں پر باقی ہے جبکہ شولاپور کے کسانوں پر ۲؍ ہزار ۶۸۱؍ کروڑ روپے کی رقم ہے ۔ تیسرے نمبر پر ایوت محل ہے جہاں کے کسانوں سے بینکوں کو ۲؍ ہزار ۲۵۶؍ کروڑ روپے وصول کرنے ہیں۔
ہر چند کہ حکومت نےیہ اعلان کر رکھا ہے بلکہ وزیر اعلیٰ فرنویس نے بینکوں کو انتباہ بھی دیا ہے کہ وہ کسانوں کو قرض دیتے وقت سیبل پوائنٹ نہ دیکھیں یعنی سابقہ قرض کے تعلق سے باز پرس نہ کریں بلکہ انہیں فصلوں کیلئے نیا قرض فراہم کریں لیکن جب کسان قرض لینے بینک جاتے ہیں تو ان سے سیبل پوائنٹ کے تعلق سے باز پرس کی جاتی ہے اس لئے کئی کسان نئے قرض سے محروم ہیں۔ خریف کا موسم شروع ہوئے ایک ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن اب تک کسانوں کو قرض نہیں ملا ہے۔ بینکوں نے اپنے ہاتھ روک رکھے ہیں اور کسانوں سے پرانے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ ۲؍ سال میں کسانوں کو مسلسل بے موسم برسات کے سبب الگ الگ طرح سے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اسی دوران گزشتہ نومبر میں ہوئے الیکشن کے دوران مہایوتی نے کسانوں سے وعدہ کیا تھا کہ دوبارہ حکومت قائم ہونے پر ان کے قرض معاف کر دیئے جائیں گے لیکن حکومت قائم ہونے پر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا بلکہ بعض لیڈران نے سرے سے اس وعدے ہی کی تردید کی۔