Updated: July 14, 2021, 7:23 AM IST
| Lucknow
رام جنم بھومی تیرتھ شیترٹرسٹ پر بدعنوانی کے الزامات کے بعد اکھاڑہ پریشد نے اپنے اراکین کو بھی ٹرسٹ میں شامل کئے جانے کا مطالبہ کردیا۔ سادھوؤں کی تنظیم کے اس مطالبے سے پریشان آر ایس ایس نے صفائی پیش کہ ٹرسٹ اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے البتہ اس مطالبے کو مرکزی حکومت تک پہنچاد یا جائے گا
موہن بھاگوت تصویرآئی این این
m
لکھنؤ: رام جنم بھومی تیرتھ شیتر ٹرسٹ کسی نہ کسی وجوہ کی بنا پر اکثر سرخیوں میں رہا ہے۔ابھی اس کے عہدیداروں پر مندر کے نام پرزمین کی خریداری میں بڑے پیمانے پر فنڈ کے خرد برد کا معاملہ دبا بھی نہیں تھا کہ سادھو سنتوں نے ٹرسٹ میں جگہ دینے کی مانگ تیز کردی ہے۔سادھو سنتوں کی تنظیم اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد نے یہ مطالبہ آر ایس ایس کے سامنے رکھا ہے جو ہندوئوں کی منظم نظریہ ساز تنظیم مانی جاتی ہے۔اکھاڑہ پریشد نے نہ صرف اپنے سربراہ اور جنرل سیکریٹری بلکہ تین اکھاڑوں کےایک ۔ایک مہنت اوردو’ جگد گروئوں‘ کے علاوہ دیگر سادھو سنتوں کو بھی ٹرسٹ میں شامل کرنے کی مانگ کی ہے۔ حالانکہ، آر ایس ایس نے دو ٹوک کہا ہے کہ وہ خود اس ٹرسٹ کا حصہ نہیں مگر یہ مانگ حکومت تک پہنچا دے گاجو حتمی فیصلہ کرنے کی مجاذ ہے۔
چتر کوٹ میں آر ایس ا یس کے جاری ’منتھن شیور‘ کے دوران پیر کو اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد کے سربراہ مہنت نریندر گری بھی پہنچے جنہوں نےرام مندر ٹرسٹ کے تعلق سے موہن بھاگوت سے بات چیت کے دوران اس میں سادھو سنتوں کی نامناسب نمائندگی کا شکوہ کرتے ہوئے یہ مطالبہ کردیا کہ ٹرسٹ میں اکھاڑہ پریشد کے سربراہ اور جنرل سیکریٹری کو بھی شامل کیا جائے۔اس کےساتھ ہی، دو جگد گرو اور تینا کھاڑوں نرموہی،دگمبر اور نروانی اکھاڑہ کے شری مہنت کو جگہ دی جائے۔علاوہ ا زیں، دیگر اہم سادھو سنتوں کو بھی اس کا حصہ بنایا جانا چاہئے۔مہنت نریندر گری کے مطالبے سے حیران آرایس ایس سربراہ نے انہیں کہا کہ وہ خود ٹرسٹ کا حصہ نہیں اور نہ ہی کوئی دیگر عہدیدار ٹرسٹ میں ہے۔اس کے فیصلے سے ٹرسٹ شامل نہیں ہے مگر آپ کی یہ مانگیں ہم حکومت تک ضرور پہنچا دیں گے۔آر ایس ا یس ذرائع اور میڈیا رپورٹ کےمطابق،اس ملاقات کے دوران دونوں نے تبدیلی مذہب، آبادی کنٹرول جیسےا یشوز پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ دونوں سینئر لیڈروں نے ٹرسٹ پر لگنے والے بدعنوانی کےا لزامات پراظہار تشویش کیا اور حکومت سے اس معاملے میں ضروری اور مناسب کارروائی کرنے کی امید کا اظہار کیا۔
قابل غور ہے کہ رام مندر سے متعلق زمین کی خریداری معاملے میں چمپت رائے کے ساتھ ساتھ ٹرسٹ کے ممبر ڈاکٹر انل مشرا کا رول بھی مشکوک رہا ہے۔ ان دونوں پر ٹرسٹ کی رقم کوزمین خریدنے کے نام پر خرد بردکرنے اوراصل قیمت سے کئی گنا زیادہ دے کر اپنے خاص لوگوں کو فائدہ پہنچانےجیسے الزامات لگ رہے ہیں۔اس معاملے نے تب طول پکڑا تھا جب سماجوادی لیڈر اور سابق ریاستی وزیرپون پانڈے نے سنسنی خیز الزامات لگاتے ہوئے میڈیا کے سامنے کہا تھا کہ ۱۰؍منٹ پہلے جو زمین ۲؍کروڑ مالیت کی تھی اسے ٹرسٹ نے ۱۸ء۵؍کروڑ میں خریدی تھی۔انہوں نے اس معاملے میں سی بی آئی جانچ کی مانگ کی تھی مگر،چمپت رائے نے جواب میں کہا تھا کہ پہلا سودا ایک دہائی قبل طے ہوا تھا جبکہ ٹرسٹ نے اب زمین خریدی ہے مگرکچھ دنوں بعدہی ایک اور خریداری کاانکشاف ہواجس میں اسی کے قریبی ایک دوسری زمین کی قیمت کافی کم تھی، جس کی رجسٹری بعد میں ہوئی تھی۔