Inquilab Logo

جنگ بندی کے باوجود خرطوم میں خوف و ہراس، سڑکیں ویران

Updated: April 27, 2023, 11:14 AM IST | Khartoum

فوج اور سریع الحرکت فوج کےدرمیان لڑائی کے بعد لوٹ مار اور ڈکیتی کی وارداتیں، بجلی کی کٹوتی اور ایندھن کی قلت ، ویکسین کے ذخیرے اور پانی کی سپلائی میں خلل پڑنے کا خطرہ ۔ اقوام متحدہ کو انسانی بحران کے تباہی میں تبدیل ہونے کا خدشہ

A man cleans the debris of his house in Khartoum, the capital of Sudan. (AP/PTI)
سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں ایک شخص اپنے مکان کا ملبہ صاف کررہا ہے۔ ( اےپی / پی ٹی آئی)

جنگ بندی کے باوجود سوڈان میں خوف و ہراس کا ماحول ہے، سڑکیں خالی ہیں۔عام حالات میں بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں بھی دور دور تک عام شہری نظر نہیں آرہے ہیں۔  اس  دوران خراب حالات کے  با جود خرطوم نہ چھوڑنے والے امدادی ادارے کے کارکنوں کو دشواری ہورہی ہے۔ خر طوم میں موجود  ایک شخص نے اپنا نام نہ ظاہر کی شرط پر بتایا کہ وہ اب بھی خرطوم میں چھپے ہوئے ہیں جہاں حالات بہت خراب ہیں۔ سڑکوں پر کہیں بھی عام لوگ نظر نہیں آتے ۔ بعض اوقات بندوق بردار فوجی سڑکوں اور گلیوں میں گشت کرتے نظر آ جاتے ہیں تو علاقے میں مزید خوف  کا ماحول ہو تا ہے۔
  میڈیارپورٹس کےمطابق سوڈان میں فوج اور سریع الحرکت فوج کےدرمیان لڑائی کے بعد لوٹ مار اور ڈکیتی کی وارداتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔شہریوں کا کہنا ہے کہ ہولناک جرائم کو روکنے کیلئے پولیس نے معمولی کوشش بھی نہیں کی ہے۔ فوج اور  سیکوریٹی ایجنسیاں بھی جرائم پیشہ افراد کے سامنے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہیں۔
   دریں اثناء اقوام متحدہ کی اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل برائے انسانی امور جوائس مسویا نے  سلامتی کونسل کو بتایا کہ۱۵؍اپریل سے سوڈان میں جو کچھ ہو رہا ہے   ، وہ  عام شہریوں اور امدادی کام میں مصروف عملہ کیلئے   ایک ڈراؤنے خواب جیسا ہے۔ ۱۵؍ اپریل سے پہلے بھی سوڈان میں انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت تھی ۔   ملک کی ایک تہائی آبادی یعنی۱ء۵۸؍ کروڑ افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ ۴۰؍ لاکھ بچے ،حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین غذائی قلت کا شکار ہیں۔ تقریباً۳۷؍ لاکھ ا فراد اپنے ملک ہی میں بے گھر ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تنازع نہ صرف ان ضروریات کو مزید  بڑھائے گا بلکہ اس سے نئے   بحران پیدا ہوں گے ۔ لڑائی بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیوں میں خلل ڈال رہی ہے۔ ایک انسانی بحران جلد ہی تباہی میں بدل سکتا ہے۔
  مسویا نے کہا کہ بجلی کی کٹوتی اور ایندھن کی قلت سے ویکسین کے ذخیرے اور پانی کی سپلائی میں خلل پڑنے کا خطرہ ہے۔ جنس اور صنف کی بنیاد پر تشدد کی بہت سی رپورٹیں  منظرعام پر آئی ہیں۔۱۵؍ اپریل کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے خرطوم  میں غیر یقینی صورتحال ہے۔ دسیوں ہزار افراد پڑوسی ملک نقل مکانی  کر چکے ہیں۔بڑھتے جرائم پر سوڈانی شہری پولیس کیخلاف بھی غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں۔
 ایک امدادی ادارے سے وابستہ ایک شخص کاکہنا ہے کہ وہ خرطوم میں مزید قیام کرنا نہیں چاہتے لیکن ان کا ادارہ ان حالات میں بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے،اس لئےوہ اپنے ادارے کو چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرنا نہیں چاہتے۔
 مذکورہ شخص نے بتایا کہ وہ سوڈان کے دارالحکومت میں خانہ جنگی کے سبب مسلسل ۴؍ دن تک اپنے گھر میں قید رہے۔ ایک جانب رمضان کے مہینے میں شدید گرمی تو دوسری طرف مسلسل گولہ باری،ایسے حالات پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔
   انہوں نے مزید بتایا کہ چونکہ سوڈان میں کاروبار یا روز گار کےدیگر مواقع بہت کم ہیں اس لئے اکثر غیر ملکی بین الاقوامی امدادی اداروں یا تنظیموں کے ساتھ ہی کام کرتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK