Inquilab Logo

الیکشن کمیشن پھر تنازع کا شکار، ووٹنگ فیصد پر سوال

Updated: May 02, 2024, 8:51 AM IST | New Delhi

پہلے مرحلے کی پولنگ کے اعدادوشمار ۱۱؍ دنوں کی تاخیر کے بعد جاری کئے گئے، ۵؍ فیصد کا اضافہ، بوتھ پر ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد نہ بتانے پر اپوزیشن اندیشوں میں  مبتلا

Regarding the polling percentage, the statistics released by the Election Commission are also being doubted.
پولنگ فیصد کے تعلق سے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کئے گئے اعدادوشمار پر بھی شبہ ظاہر کیا جارہاہے۔

  پہلے دو مرحلوں  کی پولنگ کے اعدادوشمار الیکشن کمیشن نے اپوزیشن کے شدید احتجاج اور بار بار کے مطالبے کے بعد منگل کی شام کو جاری کیاجو حیرت انگیز طور پر ووٹنگ  والے دن کے ووٹنگ فیصد سے ۵؍ سے ۶؍ فیصد زائد ہیں۔اس کے علاوہ الیکشن کمیشن نے ہر پولنگ بوتھ پر ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد بتانے کے بجائے صرف فیصد بتایا ہے جس کی وجہ سے  اپوزیشن پارٹیاں اندیشے میں مبتلا ہیں۔ اپوزیشن  پارٹیاں ہی نہیں  دیگر  ذمہ دار شخصیات نے بھی   الیکشن کمیشن کے اس  طرزعمل پر حیرت کااظہار کیا ہے۔ 
پولنگ فیصد  میں ۱۱؍ اور ۴؍ دن کی تاخیر
 پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے  ۱۱؍ دن بعد اور دوسرے مرحلہ کے ۴؍ دن بعد الیکشن کمیشن نے دونوں مرحلوں کی ووٹنگ سےمتعلق حتمی  فیصد جاری کیا ہے  تاہم کمیشن نے اب بھی پارلیمانی حلقوں میں ڈالے گئے ووٹو ں کی کل تعداد ظاہر نہیں کی ہے۔ الیکشن کمیشن کا عام معمول یہ ہے کہ   جس دن پولنگ ہوتی ہے اس کی شام کو غیر حتمی پولنگ فیصد بتایا جاتارہا ہے اور پھر ۲۴؍  گھنٹوں  کے اندر اندر حتمی فیصد مختلف پولنگ بوتھ پر ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد کے ساتھ جاری کیا جاتاہے۔ اس مرتبہ نہ صرف یہ کہ پہلے  مرحلے کے حتمی اعدادوشمار  ۱۰؍ دنوں کی تاخیر سے جاری کئے گئے بلکہ ووٹروں کی تعداد کو ظاہر نہیں کیاگیا۔ معروف سماجی کارکن یوگیندر یادو نےا سے حیرت انگیز قراردیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ۳۵؍ برسوں  سے میں انتخابات دیکھ رہا ہوں مگر ایسا کبھی نہیں  ہوا۔ ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد ظاہر نہ کرنے پر انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ ووٹروں کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے فیصد  کےپیچھے ۱۰؍ سے ۲۰؍  ہزار ووٹ اِدھر سے اُدھر ہوسکتے ہیں۔ا نہوں  نے نشاندہی کی کہ ۲۰۱۹ء  میں کئی پولنگ بوتھ  پر پڑنے والے ووٹ گنے گئے ووٹوں سے کم تھے۔ 
 اپوزیشن کواعتراض،اندیشوں کااظہار 
  اس حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے طریق کار پر شدید اعتراض کیا ہے۔انھوں نے سوال اٹھا یا ہے کہ کمیشن نے حتمی پولنگ فیصد کافی تاخیر سے تو جاری کیا ہی،پارلیمانی حلقوں میں ووٹروں کی کل تعداد کا ڈیٹا پھر بھی نہیں دیا، جس کی وجہ سے نتائج میں ہیرا پھیری کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے۳۰؍ اپریل کو جو اعداد و شمار جاری کئے ہیں، ان کے مطابق۱۹؍ اپریل کو پہلے مرحلے کی ووٹنگ میں۶۶ء۱۴؍ فیصد ووٹروں نے ووٹ ڈالے تھے، جبکہ دوسرے مرحلے میں۲۶؍ اپریل کو۶۶ء۷۱؍ فیصد ووٹ ڈالے گئے تھے۔   کئی حلقوں سے نشاندہی کی گئی ہے کہ  پہلے مرحلے کی پولنگ کے دن جو فیصد سامنے آیاتھا وہ فیصد الیکشن کمیشن کی جانب سے منگل کی رات جاری کئے گئے فیصد سے ۵ء۷۵؍ فیصد تک کم ہے۔     یاد رہے کہ لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے میں ۱۰۲؍ نشستوں پر۱۹؍ اپریل کو ووٹنگ ہوئی تھی، جبکہ دوسرے مرحلے میں۸۸؍نشستوں پر۲۶؍ اپریل کو ووٹ ڈالے گئے تھے۔
  اعدادوشمار بروقت جاری کئے جائیں: کانگریس
 ان اعداد و شمار کو جاری کئے جانے کے بعد کانگریس کے جنرل سیکریٹری جے رام رمیش نے کہا ہےکہ’’الیکشن کمیشن آف انڈیا کیلئے  ضروری ہے کہ وہ  الیکشن سے متعلق تمام ڈیٹا کو بروقت اور شفاف طریقے سے پیش کرے۔‘‘ انہوں نے کہاکہ پہلی بار، ووٹنگ کے پہلے مرحلے کے۱۱؍ دن بعد اور دوسرے مرحلے کے ۴؍ دن بعد الیکشن کمیشن نے ووٹنگ کا حتمی فیصد جاری کیا ہے۔‘‘ انہوں نے ایکس پر اپنے پوسٹ میں پوچھا ہے کہ’’   اس تاخیر کی وجہ کیا ہے؟‘‘  ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے لیڈر ڈیرک اوبرائن نے الزام لگایا کہ ’’مودی نے پارلیمنٹ میں قانون میں تبدیلی کرایا تاکہ اپنا امپائر حاصل کیا جا سکے اور الیکشن کمیشن کو تباہ کیا جا سکے۔‘‘ شیو سینا (یو بی ٹی) کے لیڈر آنند دوبے کا کہنا ہے کہ انتخابات کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے بعد میڈیا نے کہا کہ ۶۰؍ فیصد پولنگ ہوئی تھی، اب ۶۶؍ فیصد ہے، یہ سب کیا ہو رہا ہے۔سی پی آئی ایم لیڈر سیتا رام یچوری کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے پہلے یہ ڈیٹا آسانی سے دستیاب ہو جاتا تھا۔ یہ بہت پریشان کن بات ہے، کیونکہ نتیجوں میں گڑبڑی کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK