ہائی کورٹ کے فیصلے کے تعلق سے کہا: ہمیں اپنا موقف واضح کرنے کا موقع نہیں ملا۔ مسجد وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہے اس لئے انہدام یا منتقلی سے قبل وقف بورڈ کی این او سی ضروری ہے
EPAPER
Updated: October 03, 2025, 11:52 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai
ہائی کورٹ کے فیصلے کے تعلق سے کہا: ہمیں اپنا موقف واضح کرنے کا موقع نہیں ملا۔ مسجد وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہے اس لئے انہدام یا منتقلی سے قبل وقف بورڈ کی این او سی ضروری ہے
یہاںمشرقی جانب ہنومان ٹیکری علاقے میں واقع مدرسہ ومسجد غوثیہ کے ٹرسٹیان مسجد کے تحفظ اور انصاف کیلئے سپریم کورٹ جانے کی تیاری کررہے ہیں۔ دراصل ٹرسٹیان نے یہاں ایس آر اے کے تحت جاری ڈیولپمنٹ کے سبب مدرسہ ومسجد غوثیہ کو لاحق خطرات کے پیش نظر ایک پٹیشن داخل کرکے جلد سماعت کا درخواست کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی مگر جج جسٹس کمل کاتھا نے ٹرسٹیان پر ہی ڈھائی لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا اور فوجداری کے تحت کیس بھی درج کرنے کا حکم دے دیا ۔ اسی کے تعلق سے ٹرسٹیان سپریم جانے کی تیاری کررہے ہیں۔ جن ٹرسٹیان کے خلاف عدالت نے حکم دیا ہے ، ان میں محمد فاروق، محمد ایوب مرشد، عتیق الرحمٰن انصاری اور اسرافیل انصاری شامل ہیں۔
پورا معاملہ کیا ہے؟
بامبے ہائی کورٹ میں ٹرسٹیان کی جانب سے ایک پٹیشن ایس آر اے پروجیکٹ سے متعلق۲۰۲۲ء میں داخل کی گئی تھی ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مسجد سے متعلق جو معاہدہ کیا گیا ہے وہ انیکشچر۲؍ میں باقاعدگی سے رلیجیس کالم میں مسجد درج ہوجائے جو کہ ایس آر اے میں تعلیم گاہ کے طور پر درج کردی گئی تھی۔ اس کے برخلاف ایس آر اے کی دلیل تھی کہ پروجیکٹ کے انیکشچر۲؍ میں ’مدرسہ غوثیہ کمیٹی‘ کا نام تبدیل کرنے کیلئے غلط بیانی کی گئی اور اہم معلومات چھپا کر عدالت میں درخواست دی گئی ۔ مذکورہ علاقے کی ’امن شانتی ایس آر اے ہاؤسنگ سوسائٹی‘ کا ڈیولپمنٹ جاری ہے۔
عدالت کے حکم پرٹرسٹیان نے صفائی دی کہ چونکہ ’مسجد و مدرسہ غوثیہ‘ ۲۰۰۴ء میں وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہے، اس لئے انیکشچر۲؍کی فہرست میں نام بدل دیا جائے۔ انہوں نے ۲۰؍ اگست کے نوٹس کو بھی چیلنج کیا۔ تاہم۲۳-۲۰۲۲ء کے لئے ان کی آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ مدرسہ اب بھی موجود ہے۔ مزید یہ کہ۴؍مئی۲۰۲۳ءکو ایس آر اے حکام نے ان کی درخواست مسترد کر دی تھی۔۲۵؍ اگست۲۰۲۴ء کو اپیل بھی مسترد کر دی گئی تھی۔ اس کے بعد۲۷؍ مئی۲۰۲۵ء کو جگہ خالی کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔۲۰؍ اگست۲۰۲۵ء کو جاری کردہ نوٹس اسی کا نتیجہ ہے۔ ایس آر اے کی جانب سے ایڈوکیٹ میور کھانڈے پارکر نے عدالت کو بتایا کہ بہت سی اہم چیزیں چھپائی گئی ہیں۔
عدالت نے جرمانے کی رقم نتیا نند آشرم (ملاڈ) اولڈ ایج ہوم کو دینے کا بھی حکم دیا ہے۔
’’ہمارا مطالبہ پورا ہو اور مسجد کو تحفظ ملے‘‘
مسجد کے ٹرسٹی محمد ایوب انصاری نے نمائندہ انقلاب سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ’’عرضداشت تو ہم لوگوں نے داخل کی تھی مگر ہمیں اپنا موقف واضح کرنے اور ایس آر اے کے الزامات پر صفائی دینے کا موقع نہ مل سکا۔ اسی لئے سپریم کورٹ جانے کی تیاری کی جارہی ہے، قانونی صلاح ومشورہ جاری ہے۔ دوسرے یہ مسجد وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہے ، اس بناء پر مسجد کے انہدام اور منتقلی کے لئے وقف بورڈ کی این او سی ضروری ہے۔ تیسرے انیکشچر۲؍ میں مسجد درج کی جائے اور چوتھے معاہدے کے مطابق عمل ہو تاکہ کسی قسم کا اندیشہ نہ رہے۔‘‘انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’’مسجد پرانی اور وسیع وعریض ہے۔ اس کا رقبہ۵؍ ہزار اسکوائر فٹ سے زائد ہے اس کے علاوہ۶؍ دیگر کمرشیل گالے اور امام و مؤذن کی رہائش گاہیں ہیں۔ ٹرسٹیان کی رضامندی سے انہیں ایس آر اے کے تحت توڑ دیا گیا ہے مگر مسجد پوری طرح محفوظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کوشش اس بات کی ہے کہ قانونی طور پر ایسا قدم بڑھایا جائے جس سے مسجد اور اس کی املاک کو مستقبل میں کوئی خطرہ لاحق نہ ہو اور ایسی کسی صورتحال سے بچاجائے۔ ‘‘
’’یہ علاقے کی سب سے بڑی اور قدیم مسجد ہے‘‘
مسجد کے معاملے میں کوشش کرنے والوں میں شامل برکت اللہ قادر خان نے انقلاب کو بتایا کہ ’’اصل میں ڈیولپر کی جانب سے وعدہ خلافی کی جارہی ہے۔ یہ مسجد مقامی طور پر علاقے کی سب سے بڑی اور قدیم مسجد ہے۔ پہلے کہا گیا تھا کہ مسجد کو کچھ نہیں ہوگا، جہاں ہے وہیں رہے گی۔‘‘انہوں نے یہ بھی دہرایا کہ ٹرسٹیان اور مقامی ذمہ داروں کو اس پر بھی اعتراض ہے کہ ایس آر اے میں مسجد ومدرسہ کے بجائے تعلیم گاہ لکھا ہوا ہے، اسے مسجد درج کیا جائے۔ سبھی اس کے لئے کوشاں ہیں کہ خدا کا گھر محفوظ رہے اور مستقبل میں بھی کوئی اندیشہ نہ رہے۔