• Mon, 20 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

قسطیں نہ ادا کیں تو قرض پرلی گئی اشیاء کام نہیں کریں گی

Updated: October 05, 2025, 10:49 AM IST | Mumbai

ریزرو بینک خریداری کو فائنانس کرنےوالے اداروں  کو مصنوعات بلاک کرنے کا اختیار دینے پر غور کررہاہے، آئندہ چند مہینوں  میں  فیصلہ متوقع۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ریزرو بینک آف انڈیا ایسا نظام متعارف کرانے کی تیاری کر رہا ہے جس کے تحت اگر کوئی صارف قسطوں پر لی گئی اشیاء کی قسط وقت پر ادا نہ کرے، تو خریداری کو فائنانس کرنے والی کمپنیاں   موبائل، ٹی وی اور لیپ ٹاپ جیسی مذکورہ اشیاء کو بلا ک کرسکیں۔ اس کا مقصد چھوٹے قرضوں کی وصولی کو آسان بنانا ہے۔ آر بی آئی نے بینکوں اور خریداری کو فائنانس کرنے والے مالیاتی اداروں سے اس ضمن میں   صلاح و مشورہ بھی کی ہے۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ مالیاتی اداروں نے قسطوں  پر خریدے گئے موبائل فونس کے تعلق سے یہ نظام از خود اپنا لیاتھا۔ اس کے تحت وہ موبائل پر کوئی مخصوص ایپ رکھتے تھے اور قسط کی ادائیگی نہ ہونے پر اُس ایپ کے ذریعہ فون لاک کردیتے تھے۔ اہم بات یہ تھی کہ صارف تمام قسطوں  کی مکمل ادائیگی سے قبل اپنے فون سے مذکورہ ایپ ڈیلٹ بھی نہیں  کرسکتاتھا۔ قرض پر لی گئی اشیاء کی قسطیں   ادا نہ کرنے کے معاملات زیادہ ہونے کی وجہ سے اب آربی آئی اس سلسلے میں  ضوابط وضع کرنے پر غور کررہا ہے۔ 
یہ نظام بنیادی طور پر ان مصنوعات پر لاگو ہوگا جو چھوٹے کنزیومر لون پر خریدی جاتی ہیں، جیسے موبائل، ٹی وی، واشنگ مشین، لیپ ٹاپ وغیرہ۔ ان پروڈکٹس میں ایک سافٹ ویئر یا ایپ پہلے سے انسٹال کیا جائے گا جو قسط نہ دینے کی صورت میں پروڈکٹ کو لاک کر دے گا۔ نیا نظام صارف کی پیشگی اجازت پر مبنی ہوگا اور یہ یقینی بنایا جائے گا کہ اگر فون لاک بھی ہو جائے تو اس میں موجود اس کا نجی ڈیٹا محفوظ رہے۔ اگر بینکوں کو لاکھوں صارفین کے ڈیٹا تک رسائی دی جاتی ہے تو اس میں خطرہ ہے کہ یہ ڈیٹا لیک ہو سکتا ہے، جس سے بلیک میلنگ یا فراڈ کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی صرف ان مصنوعات میں ممکن ہے جن میں سافٹ ویئر یا انٹرنیٹ کنکشن ہوتا ہے، جیسے موبائل، ٹیبلٹ، اسمارٹ ٹی وی، لیپ ٹاپ وغیرہ۔ فریج، واشنگ مشین یا فرنیچر جیسی غیر ڈیجیٹل اشیاء میں یہ ممکن نہیں ہے۔ 
امورِ فائنانس کے ماہرعادل شیٹی نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آر بی آئی کو اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ موبائل یا لیپ ٹاپ جیسے آلات کیلئے جو قرض دیا جاتا ہے وہ بغیر کسی سیکوریٹی کے ہوتا ہے۔ اسی لئے ا ن پر سود کی شرح۱۴؍ تا۱۶؍ فیصد تک ہوتی ہے۔ اگر نیا نظام نافذ ہوتا ہے تو یہ قرض ہوم یا کار لون جیسے محفوظ قرضوں کی زمرے میں آ جائیں گے۔ اس بنیاد پر انہوں نےنشاندہی کی کہ اس  صورت میں ان قرضوں  کی سود کی شرح بھی کم ہونی چاہیے۔ 
امریکہ سمیت کئی ممالک میں پہلے سے ایسے سسٹمز موجود ہیں جن میں قسط نہ ادا کرنے پر گاڑی اسٹارٹ نہیں ہوتی۔ مثال کے طورپر امریکہ میں کار لون کیلئے ’’کِل سوئچ‘‘ کا استعمال ہوتا ہے جبکہ کنیڈا میں ’’اسٹارٹر انٹرپٹ ڈیوائس‘‘ قسط نہ دینے پر گاڑی کو بند کر دیتا ہے۔ کینیا اور نائیجیریا جیسے افریقی ممالک میں ’’پے اَیز یُو گو‘‘ سولر سسٹم ہے جو قسط نہ دینے پر بند کر دیا جاتا ہے۔ 
اس نظام سے قسطوں کی ادائیگی کا وقت پر ہونا یقینی بنایا جاسکے گا اور اس سے بینکوں کا اعتماد بھی بڑھے گا اور کم کریڈٹ والے صارفین بھی قسط پر سامان خرید سکیں گے۔ نقصانات میں یہ شامل ہے کہ اگر ضروری آلات (جیسے فون یا گاڑی) بند ہو جائیں تو اس سے روزگار، تعلیم یا صحت کی خدمات متاثر ہو سکتی ہیں۔ ساتھ ہی صارف کی پرائیویسی اور اختیارات پر بھی سوال اٹھ سکتے ہیں۔ ۲۰۲۴ء کے ایک مطالعہ کے مطابق ملک میں ایک تہائی سے زیادہ لوگ الیکٹرانک مصنوعات، خاص طور پر موبائل فون، قسطوں پر خریدتے ہیں۔ سینٹر فار ریسرچ اِن انٹرنیشنل فائنانس ہائی مارک کے مطابق ایک لاکھ روپے سے کم کے قرضوں میں ڈیفالٹ کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK