یہ بھی پوچھا کہ واقعہ کے ۳؍ ہفتے بعدیہ خط کیسے ملا جبکہ پولیس نے کمرے کی تلاشی لی تھی۔مہلوک کے اہل خانہ کا بھی سوسائڈ نوٹ کو قبول کرنے سے انکار
EPAPER
Updated: April 12, 2023, 10:43 AM IST | Mumbai
یہ بھی پوچھا کہ واقعہ کے ۳؍ ہفتے بعدیہ خط کیسے ملا جبکہ پولیس نے کمرے کی تلاشی لی تھی۔مہلوک کے اہل خانہ کا بھی سوسائڈ نوٹ کو قبول کرنے سے انکار
؍ ۱۲ فروری کو آئی آئی ٹی بامبے کے طالب علم درشن سولنکی کی موت کے معاملے میں خودکشی پر مجبورکرنے کے الزام میں اس کے ساتھی طالب علم ارمان اقبال کھتری کوپولیس نے اتوار کو گرفتار کرلیا تھا۔ اس تعلق سے ملزم ارمان کے اہل خانہ نے سوال کیا کہ پوائی پولیس جس نے ابتدائی تفتیش کی تھی۔ اسے کچھ نہیں ملا لیکن ۳؍ ہفتے بعد کرائم برانچ کو اچانک یہ ( سوسائڈ)نوٹ مل گیا، کیسے؟
کھتری خاندان نے آئی آئی ٹی بامبے کےتشکیل دیئے گئے پینل کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا جس نے ۱۸؍ سالہ درشن کے خلاف ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو مسترد کر دیا تھا۔ متوفی کا خاندان پہلے دن سے یہ الزام لگا رہا تھا کہ درشن پر ایس سی / ایس ٹی (پسماندہ) ذات سے تعلق رکھنے پر ساتھی طلباء کے ذریعہ ہراساں کیا جاتا ہے۔ ارمان کی بہن نے اس نمائندے کو بتایاکہ ’’پولیس نے میرے بھائی کو گرفتار کر لیا ہے۔‘‘ممبئی پولیس کی کرائم برانچ نے خودکشی نوٹ ملنے کا دعویٰ کیا ہے، جس میں لکھا تھا کہ ’’ارمان نے مجھے مارا ہے‘‘۔ پولیس نے ہینڈرائٹنگ ایکسپرٹ کی مدد لی جنہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ درشن نے لکھا ہے۔
تاہم مہلوک کے والد نے خودکشی نوٹ پر بھی شبہ ظاہر کیا ہے اور اپنے بیٹے کی موت میں ارمان کے ملوث پر شبہ کا اظہار کیا ہے۔اس نمائندے سے بات کرتے ہوئے ۱۸؍سالہ ملزم ارمان کے اہل خانہ نے ان الزامات کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیا۔ ارمان کی بہن نے کہا کہ ’’پورا خاندان اس وقت صدمے میں ہے۔اس واقعہ کا ایک طالب علم گواہ ہے جس نے درشن کو کالج کی عمارت کی ساتویں منزل سے چھلانگ لگاتے دیکھاپھر بھی پولیس نے میرے بھائی کو گرفتار کر لیا۔ اس نے کبھی کسی کو تنگ نہیں کیا۔ وہ ایسا کام کبھی نہیں کرے گا کیونکہ وہ پڑھائی پر توجہ دینے والا طالب علم ہے۔ کالج سے میرے بھائی کے خلاف ایک بھی شکایت نہیں آئی ہے۔‘‘ اہل خانہ نے کہا کہ ’’پوائی پولیس اور انسٹی ٹیوٹ دونوں نے اس کیس کی تفتیش کی اور کچھ نہیں ملا لیکن اچانک ایک سوسائڈ نوٹ نمودار ہوتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ میرے بھائی نے درشن کے ساتھ کبھی بات چیت نہیں کی تھی۔ میرا بھائی بے قصور ہے اور ہم اسے جیل سے رہا کرانا چاہتے ہیں۔ اس کے بجائے پولیس کو اس کے روم میٹ سے پوچھ گچھ کرنی چاہئے۔‘‘ ارمان کے کیس کی پیروی کرنے والے ایڈوکیٹ دنیش گپتا نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پولیس نے اسے پھنسایا ہے۔ پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے گپتا نے کہا کہ پولیس کو یہ نوٹ ۳؍ مارچ کو ملا لیکن انہوں نے اسے کسی کو نہیں دکھایا۔
مہلوک درشن سولنکی کے اہل خانہ کو ۱۶؍ مارچ کو خودکشی نوٹ دکھایا گیا تھا۔ ایڈوکیٹ دنیش گپتا نے کہا کہ ’’میرا موکل ایک ذہین طالب علم ہے۔ اس نے کبھی کسی کو دھمکی نہیں دی۔ اس کے بجائے پولیس کی تفتیشی رپورٹ میں یہ لکھا گیا کہ درشن نے ارمان کے مذہب اور مسلم کمیونٹی پر تبصرے کئے ہیں۔ ارمان نے کبھی اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیالیکن پولیس نے اب ایس سی/ایس ٹی ایٹروسٹی ایکٹ شامل کیا ہے جس کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا۔‘‘
گواہ کے بیانات کے مطابق ارمان نے چیزوں کو کاٹنے والے آلے سے درشن کو دھمکی دی تھی۔ ایڈوکیٹ گپتا نے کہاکہ اگر کوئی طالب علم ڈرتا ہے تو وہ اپنے اساتذہ یا والدین کو بتائے گا لیکن درشن کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔اگر کوئی شخص کسی کو کٹر لہرا کر ڈراتا ہے تو اس سے وہ خودکشی کرکے نہیں مرتا ۔ اس کیلئے مسلسل دھمکیاں دی جانی چاہئیں لیکن اس کیس میں ایسا نہیں تھا۔اس کے علاوہ گواہ اچانک نمودار ہوئے ہیں۔ پولیس کے پاس من گھڑت ثبوت ہیں۔ ہم ضمانت کیلئے درخواست دے رہے ہیں اور ایک بار جب وہ باہر آجائے گا تو ہم ایف آئی آر کو منسوخ کرانے کی کوشش کریں گے۔ گپتا نے کہا کہ انہیں شبہ ہے کہ درشن نے اسلئے خودکشی کی کیونکہ وہ کچھ داخلی امتحانات میں فیل ہوگیا تھا۔
مہلوک درشن کے والد رمیش سولنکی نے اس نمائندے کو بتایا کہ ’’میرے بیٹے کو ہمیشہ اس کی ذات کیلئے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور اس نے اس کے بارے میں گھر والوں کو بتایا تھا لیکن ارمان کے بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا۔ ہم نے خودکشی نوٹ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ اس میں بہت سے ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو میرا بیٹا نہیں لکھ سکتا تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ اسے قتل کیا گیا ہے۔ ہمیں ارمان کے ملوث ہونے کا یقین نہیں ہے اور ہم منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘
اس کیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کےانچارج ذرائع کے مطابق ارمان تعاون نہیں کر رہاہے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ ’’جبکہ اس نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے درمیان کچھ مسائل تھے لیکن اس نے تفصیلات فراہم نہیں کیں۔‘‘