Inquilab Logo Happiest Places to Work

کسان تنظیم کا ’گئو ہتیا قانون‘ فوراً ختم کرنے کا مطالبہ

Updated: June 25, 2023, 10:37 AM IST | sangli

’شیتکری سنگٹھنا‘ کے سربراہ نے کہا ، بڑے جانوروں کی خریدوفروخت پر پابندی کے سبب نہ صرف کسان پریشان ہیں بلکہ مویشیوں کی نسل بھی ختم ہوجانے کا اندیشہ ہے

Farmers are unable to sell their animals due to Govinash Hatia law (File Photo)
گئوونش ہتیا قانون کے سبب کسان اپنے جانور بیچ نہیں پا رہے ہیں( فائل فوٹو)

ء ۲۰۱۵میں حکومت مہاراشٹر  نے ریاست میں بڑے جانور کے گوشت کی فروخت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ یہ ایک سیاسی فیصلہ قرار دیا جا رہا تھا جس کی وجہ سے ریاست میں بی جے پی کو ہندو تواوادی ووٹو ں میں اضافے کی امید تھی۔ لیکن جلد ہی اس قانون کے سبب کسانوں کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ اب کسانوں نے اس قانون کو ہٹانےکا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون محض سیاسی مفاد کی خاطر لایا گیا تھا جسکی وجہ سے کسانوں کو نقصان ہو رہا ہے۔
 سیاسی  مفاد کیلئے لایا گیا قانو ن! 
 کسانوں کی تنظیم شیتکری سنگٹھنا نے پریس  کانفریس منعقد کرکے ریاست میں کاشتکاروں کو پیش آنے والی دقتیں بیان کیں، ان میں سب سے اہم ان کے بوڑھے ہو چکے جانوروں کی فروخت کا بند ہو جانا ہے۔ ا سکی وجہ سے نہ صرف انہیں مالی دشواری پیش آ رہی ہے بلکہ  آئندہ مویشیویوں کی نسل کے ختم ہوجانے کا بھی خدشہ ہے۔ تنظیم کے سربراہ رگھوناتھ پاٹل نے کہا کہ ’’ ریاست میں گئوونش ہتیا کے خلاف جو قانون لایا گیا ہے اس کی وجہ سے کاشتکار مسلسل مشکلوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ‘‘ انہوں نےکہا کہ مویشی کسانوں کی بنیاد ہیں اور  ان کی خرید وفروخت پر پابندی کسانوں کیلئے دقتیں پیدا کر رہی ہیں۔ اس قانون کو مکمل طور پر ختم کردینا چاہئے۔‘‘  انہوں نے یاد دلایا کہ جب سے قانون نافذ کیا گیا ہے تب سے کسان برادری اس کی مخالفت کر رہی ہے۔ جگہ جگہ مورچے نکالے گئے، کسان ، دلت اور قریش برادری مل کر اس قانون کو ختم کروانے کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں لیکن ان کی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ ۲۰۱۵ء میں  اس وقت کی دیویندر فرنویس حکومت نے گئو ونش ہتیا قانون کو مرکز سے منظور کروا کر مہاراشٹر میں گائے بیل کو ذبح کرنے کے مقصد سے فروخت کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی جس کےبعد شہروں میں ملنے والے بیف کی جگہ تو بھینس کا گوشت فروخت ہونے لگا تھا لیکن دیہی علاقوں میں کسانوں کے یہاں سے بیل کی فروخت بند ہو گئی تھی۔ 
انہوں نے کہا کہ ’گئوہتیا‘ قانون نافذ ہونے کے بعد سے ریاست میں کسانوں کے مختلف قسم کے کاروباروں کو نقصان پہنچا ہے۔  ایک طرح سے ان پر بندش سی لگا دی گئی ہے۔ پاٹل نے الزام لگایا کہ سیاسی پارٹیوں نے ووٹوں کی سیاست کی خاطر یہ قانون نافذ کیا ہے۔ وہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ اگر گئو ہتیا کا قانون ختم نہیں کیا گیا تو  جانوروں کی یہ نسل ختم ہو جائے گی۔‘‘  پریس کانفرنس میں انہوں نے کسانوں کے دیگر مسائل کی طرف بھی نشاندہی کی ۔ خاص کر شکر کے کارخانہ داروں کی جانب سے کسانوں کے ’منظم استحصال‘ کی تفصیل بیان کی۔ 
۲۵؍ خاندانوں کے ہاتھ میں ۲۰۰؍ شکر کارخانے 
  رگھوناتھ دادا پاٹل کے مطابق ریاست میں شکر کے کارخانوں پر چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔   انہوں نے بتایا کہ ’’ صرف ۲۵؍ خاندانوں کے ہاتھ میں شکر کے ۲۰۰؍ کارخانے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ  گنا کسانوں کا منظم استحصال کرتے ہیں۔‘‘  انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے شکر کارخانے اور ایتھنال پلانٹ کیلئے ۲۵؍ کلو میٹر کے فاصلے کی شرط  اس میں ان کی مدد کرتی ہے۔ کسان لیڈر کے مطابق ’’شکر کارخانے اور ایتھنال پلانٹ قائم کرنے کیلئے حکومت نے ۲۵؍ کلو میٹر کے فاصلے کی شرط عائد کی ہے جس کی وجہ سے کسانوں کا نقصان ہو رہا ہے۔  ہم اس شرط کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس کے خلاف تحریک بھی چلانے والے ہیں۔‘‘ 
 ۲۶؍ جون کو کسان میلہ
  رگھوناتھ پاٹل  نے کہا کہ گنا توڑنے والی مشینوں کو حکومت ۴۱۱؍ روپے فی ٹن کے حساب سے ادائیگی کرتی ہے جبکہ گنا توڑنے والے مزدوروں کو ۲۳۰؍ روپے فی ٹن معائوضہ دیا جاتا ہے۔ مزدوروں کو بھی مشینوں کے برابر ہی معائوضہ دیا جائے۔  انہوں نے اعلان کیا کہ ۲۶؍ جون (پیر) کو سانگلی میں کسان میلہ منعقد کیا جائے گا جس میں یہ ساری باتیں پیش کی جائیں گی اور اس کیلئے تحریک چلائی جائے گی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK