Inquilab Logo

متھرا شاہی عیدگاہ معاملے پراپوزیشن جماعتوں کا سخت رد عمل

Updated: December 27, 2022, 7:45 AM IST | Jilani Khan | Lucknow

کانگریس نے نچلی عدالت کے فیصلے کو آئین کے منافی قرار دیا،سماجوادی پارٹی کی اقلیتی سیل کےسربراہ کی سپریم کورٹ سے مداخلت کی اپیل، مذہبی لیڈروں نے بھی برہمی کااظہار کیا اور’پلیسز آف ورشپ ایکٹ‘ کی پاسداری کا مطالبہ کیا، عدالت عظمیٰ سے بھی اپیل کی گئی کہ وہ از خود نچلی عدالتوں کی اس روش کا نوٹس لے

Mathura`s Shahi Eidgah Mosque, now eyed by sectarians
متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد ، جس پر اب فرقہ پرستوں نے نظریں جما رکھی ہیں

گیان واپی مسجد کے سروے کے بعد اب متھراکی شاہی عیدگا مسجد کے سروے کی باری ہے، جس کیلئے عدالت کی جانب سے ہدایت جاری ہوچکی ہے۔ گیان واپی کے سروے نے عدالتوں میںاس معاملے سے متعلق جاری مقدمات کو ایک نیارُخ دے دیا۔اس طرح مزید کئی عرضیاں عدالتوں کے گوش گزار ہوگئیں۔متھرا میں بھی یہ دُہرائے جانے کے خدشات کے درمیان اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی  لیڈروں نے نچلی عدالتوں کے اس فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ان سیاسی اور ملّی لیڈروں نے اس طرح کےفیصلے کو غیر ضروری بتایاہے اورمتنبہ کیا کہ اس سے ملک میں نفرت کا ماحول بڑھے گا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی  متاثر ہوگی۔ساتھ ہی، عدالت عظمیٰ سے اپیل کی ہے کہ وہ نچلی عدالتوں کی اس روش کا  از خود نوٹس لے اور پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس قانون کی پاسداری کو برقرار رکھے۔
 گزشتہ دنوں متھرا کی سول جج (سوم)سونِکا ورما نے شاہی عیدگاہ مسجد کے سروے کا حکم دیتے ہوئے یہ ذمہ داری کورٹ کے امین کو سونپی ہے، جنہیں ۲۰؍جنوری تک مکمل رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس حکم نے نہ صرف ملک کی سب سے بڑی اقلیت بلکہ پورے سیکولرخیمے میں بھی بے چینی کا ایک ماحول پیدا کردیا ہے۔
 مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے اس پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک غیر ضروری اور تشویشناک فیصلہ ہے کیونکہ اس سے ملک کا ماحول مزید خراب ہوسکتا ہے۔’انقلاب‘ سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ آئین اور پارلیمنٹ کی خلاف ورزی ہے، اسلئے سپریم کورٹ کو اس معاملے پر از خود نوٹس لینا چاہئے۔مولانا نے کہا کہ مذہبی مقامات کے تقدس کو بحال رکھنا حکومت ، عدلیہ اور مقننہ  کے ساتھ ہی ملک کے شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بابری مسجد کو صرف پلیسز آف ورشپ ایکٹ ۱۹۹۱ءسے الگ رکھا گیا تھا، جس کا  فیصلہ بھی آچکا ہے،ایسے میں کسی اور عبادتگاہ پرجاری  تنازع کو مزید ہوا دیناملک کی سلامتی ،اتحاد اور سماجی تانے بانے کو بکھیر سکتا ہے۔
 اسی طرح اترپردیش کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت سماجوادی پارٹی کی قومی اقلیتی سیل کے سربراہ نے اپنے سخت رد عمل میں کہا ہے کہ نچلی عدالتیں اس قسم کے فیصلے سے تنازع کو مزید طول دے رہی ہیں۔اگر سپریم کورٹ نے اس روش کا جائزہ نہیں لیا اور اس پر از خود نوٹس نہیں لیا تو یہ سلسلہ دراز ہوسکتا ہے اور اس کے بعد مزید تنازعات سامنے آسکتے ہیں۔مولانا اقبال قادری نے’انقلاب‘ سے کہا کہ ایسے فیصلے ۲؍ اہم فرقوں کے درمیان خلیج کو مزید بڑھاتے ہیںکیونکہ ایک فرقہ کیلئے اس طرح کے فیصلے انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں۔انہوں نے سروے کے حکم کوبالکل غلط بتاتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں جو قانون پہلے سے ہے، اس کی پاسداری رکھی جائے۔
 اسی پارٹی کے قومی ترجمان عباس حیدر نے ٹیلیفونک گفتگو میں کہا کہ اس معاملے میں بیشتر عرضی گزار بھگوا خیمہ کےہیں، جنہیں برسر اقتدار جماعت کی پشت پناہی حاصل ہے۔نچلی عدالتیں بھی دبائو میں ہیں،اسلئے یہ حکم غیر یقینی نہیں۔البتہ، یہ بھی طے ہے کہ ایک مخصوص فرقے کو حاشیہ پر لانے کیلئے جو طریقے اپنائے جارہے ہیں، ان سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی شبیہ خراب ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسا ماحول جس میں کام، ترقی، روزجیسے موضوعات پر بات ہی نہ ہوں اور لوگ متنازع معاملوں میںا لجھے رہیں، بی جے پی کیلئے بہت سود مند رہتا ہے۔اسلئے وہ عدلیہ پر بھی دبائو بناکر اس طرح کے فیصلے کراتی رہتی ہے۔
 شاہی عیدگاہ مسجد کے سروے کے حکم پرسب سے سخت تبصرہ کانگریس کا ہے، جس کے یوپی اقلیتی سیل چیئر مین شاہنواز عالم کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ آئین کے خلاف ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ سیاسی دبائو کا نتیجہ ہے، جس سے عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوگی۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی عرضی کو قابل سماعت مان لینا ہی غلط ہے، کیونکہ پلیسز آف ورشپ ایکٹ اس کی اجازت نہیں دیتا ۔شاہنواز عالم نے ایسے ججوں کے خلاف سخت کارروائی کا سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ نچلی عدالتوں کے ایسےمتنازع فیصلوں ہی سے ملک میں مذہبی پولرائزیشن کو ہوا ملتی ہے۔کانگریس لیڈر نے یہ سوال بھی کیا ہے کہ آخر ایسی عرضیوں کو سماعت کیلئے قبول ہی کیوں کرلیا جاتا ہے، جو ایک قانون کے خلاف ہوتی ہیں۔اس لئے، اب سپریم کورت کو چاہئے کہ اس عمل پر کنٹرول کرے ورنہ عدالتی نظام پر سوال اٹھیں گے۔شاہنواز عالم نے اپوزیشن جماعتوں اور شہریوں سے اپیل کی کہ آئین بچانے کیلئے ہم تمام کو ساتھ آنا ہوگا ورنہ روز نئے تنازعات کو جنم دیئے جائیں گے اور ارباب اقتداراپنی مرضی سے فیصلے کراتے رہیں گے جو آئین کو ختم کرنے کی ان کی کوششوں کیلئے راہ ہموار کرے گی۔ 
  غور طلب ہے کہ متھرا کی سول جج (سوم) سونکا ورما نے کورٹ امین کو ہدایت دی ہے کہ وہ امین جائے وقوع کا دورہ کریں، تمام پہلوؤں سے سروے کریںاور اپنی رپورٹ مع نقشہ  عدالت میں ۲۰؍جنوری تک پیش کریں تاکہ اس روز اگلی سماعت ہوسکے۔یہ حکم ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتاکی درخواست پر دیا گیا ہے، جس نےمسجد کمپلیکس کو ہٹانے کی مانگ کی ہے اور اسے شری کرشن جنم بھومی بتاتے ہوئے اپنی بات کو ثابت کرنے کیلئے سروے کا مطالبہ کیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK