Inquilab Logo

جیل میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ بے چینی نہ رہی ہو

Updated: May 27, 2021, 9:04 AM IST | Mumbai

ہر ہفتے اہل خانہ سے ۵؍ منٹ کی فون پر گفتگو کا انتظار رہتا ہے مگر وہ ۵؍ منٹ ایسے گزر جاتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا

Omar Khalid.Picture:INN
عمر خالد تصویر آئی این این

شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج میں سرگرم رہنے  کے بعد  دہلی فساد کے الزام میں گرفتار عمر خالد نے جیل میں  اپنے شب وروز کےبارے میں کہا ہے کہ گزشتہ ۸؍ مہینوں میں ایک دن یا رات ایسی نہیں گزری جس میں بےچینی نہ رہی ہو۔ بانو جیوتسنا لہری اورانربان بھٹا چاریہ    نے عمر خالد سے ہونے والی بات چیت کو ان کے مضمون کی شکل دی ہے جو دی پرنٹ نے شائع کیا ہے ۔   مضمون میں  انہوں نے جو باتیں لکھی ہیں  اس کا مفہوم  ذیل میں پیش کیا جارہاہے:
 تہاڑ جیل میں میرا قرنطینہ ختم ہونے کے ۲؍ دن بعد   میں نے  اپنی ساتھی نتاشا ناروال کے والد مہاویر ناروال کی کوروناسے موت کی دل دہلادینے والی خبر پڑھی۔میں مہاویر جی کو ذاتی طور پر نہیں  جانتا  مگر گزشتہ سال گرمیوں  میں نتاشا کی گرفتاری کے بعد میں نے ان کے چند انٹرویو دیکھے ہیں۔  پورے خاندان کیلئے انتہائی پریشانی  کے اس دور میں بھی  وہ بات انتہائی  انتہائی  متانت اور وقار کے ساتھ کرتے تھے۔ نتاشا پر عائد کئے گئے ’’فساد کی سازش‘‘  کے الزام  سے ڈر جانے  کے بجائے   انہوں نے اپنی بیٹی کی بے گناہی کا اعلان   اوراس کی  سماجی  سرگرمیوں پر فخر کااظہار کیا۔ ان کی موت کی خبر سے دل تڑپ اٹھا۔
 جیل میں زندگی عام دنوں میں بھی کافی مشکل ہے۔  میں نے گزشتہ ۸؍ مہینے اپنے بیرک میں اکیلے گزارے ہیں۔ ۲۰۔۲۰؍ گھنٹے کمرے میں اکیلا  قید رہا ہوں مگر کورونا  کے بعد  کے حالات نےجیل کی زندگی کو کئی گنا زیادہ مشکل کردیاہے۔ میں نے جیل  میں ایک دن یا رات بھی ایسی نہیں گزاری جب مجھے بے چینی نہ رہی ہو۔  ہروقت  اہل خانہ اور اپنے چہیتوںکی فکر لاحق رہتی ہے۔ہر صبح اخبارات موت اور بے بسی کی جو کہانیاں لے کر آتے ہیں وہ ذہن میں ابھرنے والے اندیشوں کو جھٹکنے  نہیں دیتیں۔  ایسے وقت میں لگتا ہے کہ جیسے جیل کے کمرے سکڑ رہے ہیں بند رہنے کی شدت کااحساس ہوتا ہے اور گھٹن  محسوس ہونے لگتی ہے۔    اہل خانہ سے رابطہ کیلئے ۵؍ منٹ کے ہفتہ واری فون کال اور دوہفتوں  میں  ایک بار۱۰؍ منٹ کی ویڈیو کالنگ کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے مگر جیسے ہی گفتگو شروع ہوتی ہے، گھڑی کی ٹک ٹک تیز ہوجاتی ہے  فون سے لگا ٹائمر فون کاٹ دیتاہے۔

  ایک ایک لمحے اور سیکنڈ کی قیمت کا  جواحساس مجھے اِن  فون کالس کے وقت  ہوتا ہے  وہ  زندگی میں  اس سے پہلے کبھی نہیں ہواتھا۔ 
 اپریل کے وسط میں مجھے اطلاع ملی تھی کہ میری والدہ اور دیگر کئی اعزہ کورونا سے متاثر ہوگئے ہیں۔ خاص طور سے میرے انکل کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ ان کا آکسیجن لیول مسلسل گھٹ رہاتھا ، انہیں اسپتال داخل کرنا پڑ ااور جلد ہی آئی سی  یو میں منتقل بھی کرنا پڑ گیا۔ گھر پر بیماریوں کی ان خبروں کے بیچ ایک صبح جب میں  بیدار ہوا تو میری طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی۔  مجھے بخار اور بدن میں شدید درد تھا۔  میں فوراً اپنی جانچ کرانے کیلئے جیل کے او پی ڈی پہنچا مگر انہوں نے چند دوائیں  دے کر واپس بھیج دیا۔ ۶؍ دن کورونا کی علامتیں  برقراررہیں تب کہیں جا کروہ بھی کورٹ کے حکم کے بعد  میری جانچ ہوئی اور رپورٹ مثبت آئی۔ بہرحال کورونا پازیٹیو آنے کے بعدمجھے  وہ تمام طبی توجہ ملی جو ملنی چاہئے تھی، ساتھ ہی مجھے قرنطینہ کردیاگیا۔ مگر قرنطینہ کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ اب نہ ہفتہ واری فون کال ہو پائے گا نہ دو ہفتوں میں ایک بار ۱۰؍ منٹ کی ویڈکال کے ذریعہ گھروالوں  سے  گفتگو ممکن ہوگی۔ 
 قرنطینہ کے دوران ہی دہلی ہائی کورٹ کے ذریعہ بنائی گئی اس بااختیار کمیٹی  کے بارے میں بھی پڑھا جسے کورونا کے پیش نظر گزشتہ سال کی طرح امسال بھی  پرول یا عبوری ضمانت پر قیدیوں کی فوری رہائی کافیصلہ کرنا تھا۔ سال گزشتہ کے تجربہ کی وجہ سے مجھے اندازہ تھا جو صحیح بھی ثابت ہواکہ یو اے پی اے کے الزامات کے تحت گرفتار ملزمین کو کسی طرح کی راحت نہیں ملے گی۔ ہمارے لئے اپنے اہل خانہ کے پاس واپس پہنچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ عدالت سے ضمانت مل جائے۔ مگر یو اے پی اے کے سخت التزامات کی وجہ  سے مستقبل قریب میں   ایسا ہو پانا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ ایک قانون کی حیثیت سے یو  اے پی اے سپریم کورٹ کے وضع کردہ اُصول  کے خلاف بھونڈا مذاق ہے کہ ضمانت کو ترجیح دینی چانی چاہئے اور قید استثناء ہونا چاہئے۔  یو اےپی اے   کے معاملے میں یہ اصول پوی طرح سے الٹ جاتا ہے کیوں کہ(اس قانون کے تحت)ملزم کو یہ ثابت کرنا  ہوتا ہے کہ وہ بے گناہ ہے۔ یعنی مقدمے کی شنوائی اس تاثر کے ساتھ ہوتی ہے کہ ملزم   اصل میں مجرم ہے۔  ضمانت کی درخواست میں بھی یہی معاملہ ہوتا ہے۔  
 ایسا لگتا ہے کہ بہت ہی طویل عرصے تک مقدمہ چلنے کے بعد ہی ہماری رہائی ہوسکے گی۔ گزشتہ ۱۴؍ مہینوں میں یعنی ہم میں سے پہلے شخص کی گرفتاری کے بعد سے اب تک مقدمے کی شنوائی شروع تک نہیں ہوئی ہے۔ ہمیں اب تک اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع ہی نہیں ملا ہے۔ ہم تمام ۱۶؍ افراد کو جنہیں  فساد کی ساز ش کا ملزم بنایا گیا ، مقدمے کی شنوائی شروع ہونے سے پہلے کی قید کا سامنا ہے۔ اس وباکی وجہ سےشنوائی میں مزید تاخیر ہی ہوگی۔  واضح طور  پر یہ مرحلہ ہی اپنے آپ  میں سزا ہے۔
  میں اکثر یہ سوچتا رہتا ہوںکہ اگر میں آج آزاد ہوتا تومیری زندگی کیا ہوتی ، معمولات کیا ہوتے ؟ ہم  ان تک پہنچنے کی کوشش کرتے جنہیںاس وقت کسی مدد کی ضرورت ہے ، ان کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہا رکرتے ، چاہےان کی شناخت اورپہچان کچھ ہو۔ کم وبیش ۱۴؍ مہینوں کی  اس مدت میں جہاں سیکڑوں زندگیوں کے چراغ بجھ گئے ہیںوہیںماہرین کاکہنا ہےکہ لوگوں کی ذہنی صحت بھی شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ میںامیدکرتا ہوںکہ ان حالات میںلوگ سیاسی قیدیوں اور ان کے  اہل خانہ کے بار ے میں سوچنے کیلئے بھی وقت نکالیں گے۔ میںامید کرتا ہوں کہ لوگ مہاویر ناروال کے بارے میںبھی سوچیںگے جونہ صرف کووڈ ۱۹؍کا شکار ہوئے بلکہ اپنی بیٹی کو آزاد دیکھنے کیلئے سال بھر کا طویل انتظار کیا ۔ میںامیدکرتا ہوںکہ لوگ نتاشاکے بارے میں سوچیں گےجو اپنے والد کے آخری وقت میں ان کےساتھ نہیںرہ سکی  او ر انہیںسپرد آتش کرنے کے تین ہفتے بعد دوبارہ جیل جانا پڑا ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK