Inquilab Logo

شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ پر مرکز کو نوٹس

Updated: March 19, 2024, 11:36 PM IST | Ahmadullah Siddiqu | New Delhi

سپریم کورٹ نے مرکز سے ۳؍ ہفتوں میں جواب طلب کیا ، فی الحال روک لگانے سے انکار ، ۲۰۰؍ سے زائد اپیلوں پر ایک ساتھ سماعت شروع کی

People who filed petitions against CAA coming out of the Supreme Court. (Photo: PTI)
سی اے اے کیخلاف پٹیشن داخل کرنے والے افراد سپریم کورٹ سے باہر آتے ہوئے۔(تصویر: پی ٹی آئی )

عالمی پیمانہ پرمتنازع شہریت قانون پرسخت تشویش کے اظہار کے درمیان منگل کو سپریم کورٹ میں اس کے نفاذ پر روک لگانے کا مطالبہ کرنے والی درخواستوں پر سماعت ہوئی جس پر عدالت نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کرکے ۳؍ ہفتوں کے اندر  جواب طلب کیا ہے۔عدالت عظمیٰ نے فی الحال متنازع قانون پر روک نہیں لگائی ہے لیکن نوٹس ضرور جاری کردیا ہے جو مرکزی حکومت کیلئے جھٹکا ہی ہے کیوںکہ اسے امید تھی کہ یہ اپیلیں مسترد ہو جائیں گی مگر ایسا نہیں ہوا۔  ادھر مرکزی حکومت نے شہریت ترمیمی قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی ۲۳۶؍ سے زائد درخواستوں کا حوالہ دیتے ہوئے جواب دینے کیلئے وقت طلب کیا۔اس پر عدالت نے تین ہفتہ کا وقت دیتے ہوئے اگلی سماعت ۹؍اپریل مقرر کی۔ 
 حالانکہ مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتانے  چیف جسٹس  چند رچڈ ،جے بی پاردی والا اورمنوج مشراکی بنچ کے سامنے اس دعویٰ کا اعادہ کیا کہ شہریت ترمیمی قانون کسی کی شہریت نہیں لیتا بلکہ یہ شہریت دینے کا قانون ہے لیکن  عدالت نے نوٹس بہر حال جاری کردیا۔ ادھر عرضی گزاروں کو کورٹ نے  ہدایت دی کہ وہ شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ پر روک لگانے کیلئے اپنے دلائل اور نکات پانچ صفحات میں پیش کریں۔مرکزی حکومت کو بھی یہ حکم دیا گیا کہ اس کا جواب پانچ صفحات سے زیادہ طویل نہ ہو۔ عدالت نے یہ بھی کہاکہ سبھی درخواستوں کا جواب دائر کرنے کی ضرورت نہیں ہے،حکومت سبھی کو بنیاد بناکر کسی ایک  درخواست کا جواب داخل کرسکتی ہے۔
 سماعت کی ابتدا میں تشار مہتا نے درخواستوں کا جواب دینے کیلئے کم ازکم چار ہفتہ طلب کیا تاہم انڈین یونین مسلم لیگ کی طرف سے پیش وکیل نے اس کی سخت مخالفت کی۔انہوںنے کہاکہ روک کا مطالبہ کرنے والی درخواستوں پر جواب دینے کیلئے چار ہفتہ کا وقت کافی زیادہ ہے۔ شہریت ترمیمی قوانین کے ضابطے چار سال کے بعد جاری کئے گئے۔انہوںنے کہاکہ اگر ابھی شہریت دے دی جاتی ہے تو بین الاقوامی قانون کے تحت یہ واپس نہیں لی جاسکتی۔ انہوں نے چار سال کے انتظار کے بعد ہنگامی طور پر شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ پر بھی سوال اٹھایا۔ سینئر ایڈوکیٹ اندراجے سنگھ نے بھی عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہوکر دلیل دی کہ حکومت کو یہ حلف نامہ دینا چاہئے کہ جب تک یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے،اس کے تحت کسی کو شہریت نہیں دی جائے گی۔انہوںنے کہاکہ یہ کوئی عام معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک آئینی مسئلہ ہے۔خیال رہے کہ انڈین یونین مسلم لیگ نے پارلیمنٹ میں ۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۹ء کو یہ قانون پاس ہونے کے فوراً بعد سپریم کورٹ میں اس کو چیلنج کیا تھا۔ آغاز میں اس کے خلاف۴۴؍ درخواستیں دائر کی گئی تھیںجو اَب ۲۳۶؍ ہو گئی ہیں۔ 

CAA 2019 Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK